|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2016

بلوچستان کے تمام رومانوی عشاق شے مرید، حمل، کیا، لٰلہ، عزت، مست توکلی، کمبر، فریاد، بیبگر، دوستین پنوں ، اور شہداد کو اگر کمپوٹر میں ایک خاص سوفٹوئیر کے ساتھ تمام انسانی اقداری خوبیوں کے ساتھ فیڈ کیا جائے تو انکا جو آؤٹ پُٹ نکل کر آئیں گے وہ ماماعبداللہ جان ہیں، آج جب ہم ماما عبداللہ جان کو یاد کررہے ہیں تو اس مجلس میں بیٹھے اکثر لوگ ماما جمالدینی کا نام سنتے ہی اپنے اذ ہان کے اسکرین پر ایک عکس یا تصویر مزین کر بیٹھتے ہیں (اگر کوئی visualizationکے عمل سے محروم ہے تو خوش قسمت ہے)جیسے شاہ محمد مری اپنے کلینک میں بیٹھے سوشلزم، انسانی حقوق، معاشرے میں خواتین کے کردار اور پاکستان میں جاگیردار اور سرداری نظام کے خاتمے پر بحث کر رہے ہوں۔ جیسے ایوب بلوچ سیکریٹری شپ سے فراغت کے بعد اپنے گھر میں انسٹیوٹ آف بلوچستان اسٹیڈیزکے اسٹیڈی روم میں بیٹھے عالمی ادب کا مطالعہ فرما رہے ہیں۔ جیسے منیر بادینی کوئٹہ شہر سمیت دنیاو جہان کے غم روزگار سے پہلو تہی کیے سارتر کے’’ دوسرے فرد کے جہمنیت ‘‘ سے اجتناب برتے اپنی ذات کی بہشت میں سرفراز سرخرو اپنے نئے ناول کے کسی کردار کے ٹرانس میں محو ہوں۔ ایسا کیوں ہے؟ ماما غالب فرماتے ہیں۔ جُزقیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا 2014 میں بلوچی اکیڈیمی کی جانب سے منعقد کردہ بلوچی زبان کے عالمی کانفرس میں خطاب کرتے ہوئے بیگ محمد بیگل نے کہا تھا’’ آج نو جوان ادیب بلوچی زبان و ادب پر گفتگو کرتے ہوئے اکثریہ بھول جاتے ہیں کہ 1949میں جب ریڈیو کراچی نے 20منٹ کے بلوچی پروگرام کا آغاز کیا تھا ، تو اس دور کے ادبی حالات کیا تھے، جب1951میں ’’ اومان ‘‘ کا اجرا شروع ہوا تو لوگوں کے پاس لکھنے اور پڑھنے کے لئے کیا مواد موجود تھا؟ بیگل کے اس بیانیے کے تناظر میں جب ’’ سر چمگ‘‘ کی تشکیل 1951 میں کی گئی تو سر چمگ کی چار سالہ ماہانہ چندہ کل ملا کر 44روپے جمع ہوئے تھے۔ 1956 میں ماھتاک ’’ بلوچی ‘‘ کا اجرا ہوا تو اس وقت اور موجودہ ماھتاک ’’بلوچی‘‘ بلوچی زند ، سچکان کی طرح ڈی پی آر میں علاقائی زبانوں کے لئے مختص اشتہاری کوٹے کا سلسلہ سرے سے موجود نہیں تھا۔ جب وہ بلوچی اکیڈیمی کے چیئرمین منتخب ہوئے تو پشتو اکیڈیمی، براہوئی اکیڈیمی اور بلوچی اکیڈیمی کا گرانٹ ایک کروڑ روپے نہیں تھا اور نہ ہی اس وقت بلوچستان کے حالات مقتدرہ کی نظر میں اس قدر خراب تھے کہ کوئی کسی ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنا کر، بلوچستان اکیڈیمی، عزت اکیڈیمی، زند اکیڈیمی، بلوچی زبانءِ دیوان مہردر انسٹیوٹ اور سنگت اکیڈیمی کو اپنے امور چلانے کے لئے گرانٹس اور فنڈ ر فراہم کرتا۔ ماما غالب فرماتے ہیں کہ حال دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی ہم نے بار ہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا مقصد یہ ہے کہ جب عبداللہ جان جمالدینی نے ادبی سفر کا آغاز کیا تو بلوچی میں نہ تو پڑھنے کے لئے مواد موجود تھا اور نہ ہی حوالہ جات کے لئے کتب، رسائل اور جرائد دستیاب تھے اگر اکا دکا غیر مستقل طور پر تھے بھی تو ان کی دستیابی اپنے تہیں ایک گمبیر مسئلہ تھا۔ماما عبد اللہ جان جب بلوچی شعبے کے چیرمین منتخب ہوئے تو انکے پاس نہ تو کلاس روم تھا، اور نہ بیٹھنے کے لیے آفس نہ طالب علم ، اور نہ ہی ڈاکٹر اور ایم فل ساتذہ موجود تھے ، نہ علامہ اوپن یونیورسٹی میں بلوچی پڑھائی جاتی تھی اور نہ ہی تربت ، نمل اور قائداعظم یونیورسٹی میں بلوچی کے شعبے موجود تھے اور نہ ہی نارو ے سویڈن اور اٹلی میں بلوچی زبان پرکانفر نسز منعقد کیے جاتے رہے تھے ۔اُس دور میں عبد اللہ جان کے سامنے صورتحال ایسی تھی کہ بقول بھارت کے سابقہ صدر عبدلکلام آزاد،’’ جو بھی موجود نہیں ، دریافت کی جائے ،،جبکہ دریافت کا عمل دراصل تخلیق ہی کا عمل ہے اور تخلیق کا عمل سب سے مستحسن عمل ہے۔اور ماما عبداللہ جان زندگی بھر اسی تخلیقی عمل پر عمل پیرا رہے ۔ شاہ محمد مری لکھتے ہیں کہ وہ یعنی ماما تصانیف کے بجائے مصنف سازی (تخلیق) کرتے رہے ۔دریافت اور تخلیق کا عمل اعلیٰ اور بلند مرتبہ ہے عبداللہ جان ساری زندگی اسی دریافت و تخلیق کے عمل میں جُتے رہے ، ہر میدان میں ۔شاہ محمد مری اکیڈمی ادبیات کی جانب سے شائع کردہ کتاب ’’عبداللہ جان ‘‘شخصیت اور فن ‘‘کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ’’سیاست اور ادب میر صاحب کے خصوصی میدان رہے ہیں انھوں نے یہ دونوں کام عمیق انسان دوستی کے اساس پر سرانجام دیئے ہیں بہت ذمہ داری اور سنجیدگی کے ساتھ وہ ان دونوں شعبوں میں محنت کرتے رہے ہیں ،سیاست میں سامراج دشمنی ، وطن دوستی ، سوشلزم اور جمہوریت انکے منشور ٹہرے اور ادب میں روشن خیالی اور ترقی پسندی انکی چوکھاٹ بنے۔لیکن اُنکی سیاست ایسی نہ تھی کہ دو جلسوں میں تقریر کردی ، لیڈر نکلے اور وزیر اعلیٰ بن گئے ، اُنکا ادب بھی ایسا نہیں تھا کہ ایک مضمون لکھ ڈالی اور اسلام آباد میں لوک ورثہ اور لاہور میں اکیڈمی ادبیات کے کا نفرنسوں میں فی پیپر 20ہزار والے مہمان ٹہرے ۔اُنکا معاملہ ہی الگ تھا ۔ ہم سینچتے ہیں کشت سحر اپنے لہو سے مانگے ہوئے سورج سے سویرا نہیں کرے مذکورہ کتاب میں ڈاکٹر شاہ محمد مری رقم طراز ہیں عبداللہ جان بنیادی طور پر ایک بشردوست انسان ہیں یہ جذبہ گویا انکی شخصیت کی ساری نیکیوں کی بنیاد ہے ۔یہی انسان دوستی ہی تو ہے جو اس معمر شخص سے ہمہ وقت انسانوں کے لیے خیر کی دعائیں کرواتی ہے انسانوں کی ترقی خوشحالی اور امن کے لیے تگ دو کرنے لگا لیتی ہے اور انسانی مصائب و آلام پہ پھوٹ پھوٹ کرر لاتی ہے ‘‘ لیکن اسی کے ساتھ اُنکی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے اسی بنیادی خصلت سے ملزوم اب یہ میرے بس میں نہیں ۔کہ بنیاد یہی ہے یا شاہ کا کیا ہوا ۔ لیکن اُنکا اپنے ارادوں سے کٹمنٹ اسی کٹمنٹ کے پس منظر میں حالات ، مخالفت ،دکھ اور آلام کا برداشت ، صبر اور اوپار ۔ وہ بھی دہائیوں پر محیط۔ ماما نے برداشت اور اوپار کے سلور جو بلی منائے ہیں ۔جب روس سالم و ثابت تھی قبلہ موجود تھا تو ماما جمالدینی کے نظریات کے لو گوں کی گنتی مشکل تھی مگر جب روس زوال کا شکار ہوا تو لوگوں نے نمازیں پڑھنی شروع کردیں شاعر بن گئے ، پارلیمنٹ اور پیسے کے دیوی کی پوجا شروع کردی اور کچھ تو اس قدر سمجھدار نکلے کہ ہیرو ئین کے کاروبار میں جُت گئے اور پاکستان کے سیاسی اور غیر فطری سماجی کالب میں ایسے فٹ ہوگئے کہ گمان گزرتا ہے کہ یہ تھے ہی وہیں کے ، لوگ قوم ، وطن اور اجتماعیت کے نظریے کو خیرآباد کہہ کر ذات ، انااور مفاد کے حصار میں مو رچہ زن ہوگئے تھک ہار کے ہم نے بھی تسلیم کیا یارو! اپنی ذات سے پیار سچا ہوتاہے شاہ صاحب لکھتے ہیں ’’یہاں یہ بتانا بہت بر محل ہے کہ جب سویت یو نین ٹوٹ گئی تو ہمارے بہت سے احباب کے سجدے آوارہ ہوگئے مگر عبداللہ جان کے ادبی سابقہ اور سیاسی نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں ، ماما وہیں کھڑے ہیں ، جہاں ، پچھلی صدی کے وسط میں تحصیلداری جیسی نوکری کو ٹھوکر مار کر کھڑے ہوگئے تھے ‘‘ جب کشتی سالم و ثابت تھی تو ساحل کی تمنا کس کو تھی اب اس شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے یہی کمٹمنٹ، برداشت، اوپار، اپنے نظریات کے ساتھ ، ماماکبھی نہیں تھکے، حالات و مصا ئب کو برداشت کرتے رہے ان کے دوست انہی کا سیاسی سلیبس لیکر وزیراعلیٰ اور گورنر بن گئے لیکن ایوانوں اور پارٹی عہدوں کی چکا چوند کبھی بھی ماما کے دل ودماغ کومتاثر نہ کر سکی اور نہ ہی ان کی نظریات کو۔ بقول شاہ محمد مری نیپ کے انتخابات کے دوران آواران اورجھالاوان کے کسانوں سے ماما کے دوستوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ الیکشن میں کامیاب ہو گئے تو ششک سے ان کی جان چھڑائی کریں گے لیکن جب نیپ والے وزیر اعلیٰ اور گورنر بن گئے تو انھوں نے کسانوں سے ششک کی معافی سے انکار کردیاتو ماما جمالدینی اپنے دوستوں کے بجائے آواران اور جھالاوان کے کسانوں کی تحریک میں شامل ہوکر انکے حقوق کے لیے شانہ بشانہ لڑے اور اپنے ترقی پسند دوستوں کو ایک مضمون کے ذریعے کہا کہ ششک کی معافی سے انکار نے انھیں سردار اور بالائی طبقے کے مفادات کا ضامن بنادیاہے۔ اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ انکا اقتدار انکا نظریہ رہا۔ انکی شخصیت میںیہ پہلو نمایاں رہی ہے کہ وہ جب کبھی محسوس کرتے کہ کسی کو ان کی خدمت یا جگہ یا راستے کی ضرورت ہے تو دوسرے کے لئے ایسے غیر محسوس طریقے سے راستہ بنا لیتے کہ چلنے والے کو کسی کی موجودگی کا کھٹکا تک نہیں لگتا۔ ایک ایسا واقعہ محروم ڈاکٹرگلزار بادینی پی ٹی وی میں اکثر ہمارے ساتھ شیئر کرتے تھے کہ پی ٹی وی میں بلوچی نیوز بلیٹن کے شروع ہونے کے ابتدائی دنوں میں خبریں بنانے کے لئے وہ اکیلے تھے اور دو دنوں میں ایک دن ماما جمالدینی کے لئے مختص کی گئی، اس پر ڈاکٹر گلزار بادینی بہت خوش ہوئے کہ ماما جمالدینی جیسے شخصیت کے ساتھ سیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔ لیکن بقول ڈاکٹر گلزار بادینی جب ماما کو وہاں آکر یہ پتہ چلا کہ میرے دو دنوں میں سے ایک دن کاٹ کر انہیں دی گئی ہے تو وہ ڈاکٹر گلزار سے ناراض ہو گئے کہ انھوں نے ان کو یہ بتایا کیوں نہیں اور حکم صادر فرمائی کہ وہ ایک طالب علم کے کمائی پر ڈھاکہ نہیں ڈال سکتے۔ بقول گلزار انہوں نے ماما کی بڑی منت و سماجت کی لیکن ماما کمیٹیڈ آدمی تھے دوسرے دن نہیں آئے۔ جسکا بقول گلزار بادینی ان کو بہت دکھ ہوا لیکن ان کے دل میں ماما کی قدر و منزلت مزید بڑھ گئی ۔ اپنی مثال وہ آپ ہیں جیسے کوئی درخت دنیا کو چھاؤں بخشے خود دھوپ میں جلے آج جامعہ بلوچستان کے شعبہ بلوچی میں ہر سال ایم اے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کئی طالب علم داخلہ لینے کے لیے آتے ہیں جن میں اکثریت داخلے سے محروم ہو جاتی ہے لیکن جب 1985میں بلوچی کا شعبہ قائم کیا گیا تو بقول میڈیم زینت ثنا ماما پورے یو نیورسٹی میں اپنے شعبے کے لیے طالب علموں کی تلاش میں سر گرداں رہے ۔انھوں نے بلوچی ڈپارٹمنٹ کو فعال بنانے کے لیے دیگر شعبوں میں جاکر طلبا کو داخلہ لینے کی ترغیب دی ۔اُنہی دنوں میں جب ماما بلوچی شعبے کے طلبا کے لیے تگ ددو میں لگے ہوئے تھے تو بقول عبداللہ بلوچ خود بلوچ حلقوں میں انھیں یہ طعنے دیئے جارہے تھے کہ شعبہ بلوچی کے استاد وہ ہیں جو خود ایم ۔اے پاس نہیں حالانکہ اسی دوران ماما نے بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کرلی تھی ۔تصور کریں اگر اُن دنوں میں ماما عبداللہ دیگر بلوچ قوم پرست اورزبان پرست دوستوں کی طرح سی ایس ایس یا پی سی ایس کرتے یا اپنی تحصیلداری کی نوکری نہ چھوڑتے ۔تو بلوچستان یونیورسٹی میں نہ صرف شعبہ بلوچی نہ ہوتا بلکہ بلوچی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرز کوآج اپنے supervisionکے لیےr supevise بھی دستیاب نہ ہوتے اور اگر ماما جدوجہد نہ کرتے تو نہ میڈم زینت ثنا بلوچی کے پہلے پی ایچ ڈی ہوتے اور نہ ہی صبادشتیاری صاحب جیسا اسکالر بلوچی زبان و ادب کو میسر آتا ۔ یہ ماما کی اُنہی اُن دنوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج مختلف یونیورسٹیوں میں بلوچی شعبوں میں ایم فل کے سوسے زائد طلباء، پی ایچ ڈی کے لیے 50 سے زائد اور ایم اے کے طالب علم سینکڑوں کی تعداد میں مو جود ہیں اور بلوچی قائداعظم یو نیورسٹی ، کراچی یو نیورسٹی ،اوپن یو نیورسٹی اور نمل کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کے یو نیو رسٹیوں میں پڑھا ئی جاری ہے ۔اب وقت آ چکاہے کہ اُنکے کام کو اکھٹا کرکے مر تب کیا جائے یہ کام اتنا زیادہ ہے کہ اس سے اردو کے دو اور بلوچی کی ایک مزید کتاب مرتب کی جا سکتی ہے اسی کے ساتھ جامعہ بلو چستان کے قابل احترام وائس چانسلر جاوید اقبال صاحب سے درخواست ہے کہ وہ جامعہ بلوچستان کے سنڑل لائبریری یا نئی تعمیر شدہ لینگوئج بلاک کوماما جمالدینی کے نام منسوب کریں ۔