|

وقتِ اشاعت :   April 1 – 2017

اللہ میاں نے انسان کو اشرف مخلوقات کا درجہ دے دیا ہے اور زمین پر اپنا نائب بنا کر اتارا ہے اور انسان کو علم کی دولت سے آراستہ کرکے دیگر مخلوقات سے افضل بنایا ہے تعلیم کی اہمیت کا ادراک رکھنے والی اقوام آج بھی دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں دنیا میں ناخواندگی ختم ہو رہی ہے لیکن ہمارے ملک میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ شرح ناخواندگی بلوچستان میں ہے۔ آخر پورا ملک ناخواندگی کو ختم کر رہا ہے یا نا خواندگی کو بڑھا رہا ہے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ویسے دنیا بھرمیں ایک بات طے ہوچکی ہے کہ اب تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہی اقوام ترقی یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل کررہی ہیں جو تعلیمی میدان میں گرانقدر اقدامات کررہی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ملک میں تعلیمی پسماندگی پر حکومتی سطح پر تمام جمہوری حکومتوں کے ادوار میں کسی قسم کے موثر اقدامات نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں ناخواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ عدم توجہ اور غیر سنجیدگی کے باعث کئی تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں سی پیک جب بن جائے گا تو یہ تعلیمی ادارے کیا اپنا رول پلے کریں گے یا نہیں ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ حکمرانوں کے پاس نہ عوام کے پاس۔ بلوچستان کی احساس محرومی کا تذکرہ ہرگز نیا نہیں۔ گزرے کچھ سال میں سابق صدر پرویز مشرف نے پاکستانیت پر یقین رکھنے والے بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کو پہاڑوں میں شہید کرکے مسئلہ” حل” کرنے کی کوشش کی تو آصف علی زردای نے بھی حقوق آغاز بلوچستان جیسے پروگراموں کے ذریعہ اربوں روپے دے کر صوبے کو ترقی دینے کے جتن کرتے رہے مگرافسوس کہ حالات بہتر نہ ہوسکے۔اسی طرح بلوچستان کا تعلیمی نظام بھی کھٹارہ بس کی طرح جس پہ سوار ہونا تو آسان مگر منزل پر پہنچنا بہت مشکل ہے۔ بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں کی ماں بلوچستان یونیورسٹی بھی اس خلا کو پر نہ کر سکی ویسے بلوچستان میں کئی تعلیمی ادارے موجود ہیں مگر ان سب سے اعلیٰ مقام بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کو حاصل ہے بلوچستان یونیورسٹی صوبے کی واحد یونیورسٹی جو قیام پاکستان کے ون یونٹ کے خاتمے پر بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیئے جانے کے بعد 1970ء میں قائم کی گئی قیام پاکستان کے بعد بلوچستان میں چند گنے چنے ادارے تھے ۔کوئٹہ شہر سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دو ہزار ایکڑ کے قریب رقبے پہ پھیلا بلوچستان یونیورسٹی واقع ہے۔ 1972ء میں بلوچستان یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر کرار حسین مرحوم تھے جن کی سربراہی میں ایم اے اور ایم اے سی کا پہلا بینچ 1973ء میں فارغ ہواتھا حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس وقت یونیورسٹی میں طلبہ اور طالبہ کی تعداد صرف 33 تھی اس کے بعد بلوچستان یونیورسٹی میں ہزاروں کی تعداد ہوگئی بلوچستان کے طلبہ اور طالبہ کی تعلیم کی لگن بڑھنے لگی اور پھر طالبہ اور طلبہ آتے گئے تو یونیورسٹی میں مزید بلاک بنائے گئے 1980ء میں آرٹس فیکلٹی اور سائنس فیکلٹی کے الگ الگ خوبصورت بلاک بنا لیئے گئے اور ساتھ میں 1980 میں بلوچستان یونیورسٹی کی خوبصورتی میں اضافے کیلئے درخت اور پودے لگائے گئے اور یونیورسٹی کو اس قدر خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا کہ اسی سال یونیورسٹی کو ملک کا سب سے خوبصورت یونیورسٹی کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ بلوچستان یونیورسٹی نے اپنے دور میں بہت سے دکھ سکھ دیکھے آج پاکستان کی سب سے خوبصورت یونیورسٹی کئی مسائل سے گھری ہوئی ہے آج بھی نوجوان مختلف فیکلٹی میں ڈگریاں حاصل کرتے ہیں جن میں فیکلٹی آف مینجمینٹ سائنس ، فیکلٹی آف بزنس، فیکلٹی آف سوشل سائنسز، فیکلٹی آف ارتھ اینڈ انوارمنٹل، فیکلٹی آف لائف سائنسز، سمیت گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ کی بھی اعزازی ڈگریاں دی جاتی ہیں بعض چار سالہ پروگرام بھی جاری ہیں بلوچستان یونیورسٹی سے ہر سال سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں طلبہ و طالبات ڈگریاں حاصل کرتی ہیں یونیورسٹی میں درس و تدریس کے شعبے سے تقریباً 500 اساتذہ منسلک ہیں۔ جامعہ بلوچستان نے پی ایچ ڈی کی بھی تقریباً 60 ڈگریاں اساتذہ کو دے چکی ہے جبکہ تقریباً 45 اساتذہ کے لگ بھگ اساتذہ بیرونی ممالک میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں جامعہ بلوچستان کا اصل مقصد تحقیق اور تحقیقی عمل کے ذریعے علم اور تحقیق کو بڑھانا ہے اسی مقصد کیلئے جامعہ بلوچستان نے ایم اے اور ایم اے سی کی تعلیم کے دوران تحقیقی مقالہ لکھنے سمیت فنکشنل انگلش کو لازمی قرار دیاہے تاکہ طلبہ اور طالبات میں تحقیق کا طریقہ اور اہمیت اور شعور پیدا کیا جا سکے یونیورسٹی میں جدید طریقوں سے طلبہ اور طالبات کو علم کی روشنی سے روشناس کروایا جا رہا ہے چاک اور بلیک بورڈ کے بجائے ملٹی میڈیا پروجیکٹر کے ذریعے اندرون ملک اور بیرون ملک سے لیکچر دیئے جاتے ہیں اس کے ذریعے طالب علموں کو سمجھنے اور پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے بلوچستان کے تمام شعبوں میں کمپیوٹر لیب اور لائبریری کی سہولت موجود ہے اور مرکزی لائبریری دور جدید کے تقاضوں کے عین مطابق ہے جس میں لاکھوں کتابیں اور رسائل موجود ہیں ویڈیو کانفرنس ہال میں جہاں ملکی اور غیر ملکی لیکچر کا اہتمام کیا جاتاہے اور مختلف موضوعات پہ مختلف وقت میں لیکچر سنے جاتے ہیں گورنر بلوچستان جو یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی ہیں وہ مختلف انتظامی اداروں کی صدارت بھی کرتے ہیں جبکہ بلوچستان یونیورسٹی اعلی تعلیم کیلئے ملکی اور بین الاقوامی 21 یونیورسٹیوں کیساتھ مفاہمتی سمجھوتوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔ جبکہ حکومت کی جانب سے جب بھی تعلیم اور امن و امان کی بہتری کے دعوے کیے جاتے ہیں جبکہ صوبہ میں کہیں نہ کہیں دھماکوں کی گونج سنائی دیتی ہے جو تمام بہتری کے اقدامات پر پانی پھیر دیتی ہے اور حکومت پھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہ جاتی ہے۔اگر آج یونیورسٹی کے اندر داخل ہوں تو آپ کو اپنا قومی شناختی کارڈ گیٹ پر جمع کروانا پڑھے گا بلوچستان یونیورسٹی میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو طلبہ اور طالبہ کبھی بھول نہیں سکتے ۔ صوبے میں انتہا پسندی، دہشت گردی، علیحدگی اور عصبیت پسندی کی فضا برپا ہے، صوبہ میں ایک ضلع یا علاقہ سے دوسرے ضلع یا علاقے میں جانا تقریباً غیر محفوظ ہوگیا ہے، یعنی صوبہ بھر میں نو گو ایریاز یونیورسٹیاں بن چکی ہیں لیکن اس حقیقت کو حکومتی سطح پر کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ جب تک زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کیا جاتا بلوچستان کسی بھی لحاظ سے ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوگا۔جب کہ بلوچستان میں موجودہ حکومت کی جانب سے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود شعبہ تعلیم کی صورتحال انتہائی خراب ہے، جس پر غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ساتھ خود حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔محکمہ تعلیم حکومت بلوچستان کے ذرائع کے مطابق بلوچستان میں کل 12 ہزار 3 سو 47 سرکاری اسکول ہیں، جن میں 58 فیصد اسکولوں میں صرف ایک استاد تعینات ہے، جب کہ اساتذہ کی 17 فیصد منظور شدہ اسامیاں خالی ہیں۔ سرکاری اسکولوں کا انفرااسٹرکچر انتہائی خراب ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 47 فیصد اسکولوں کی عمارتوں کی حالت غیر اطمینان بخش ہے، صوبے کے ہر 5 میں سے 4 اسکولوں میں بجلی، ہر 3 میں سے 2 اسکولوں میں پینے کا پانی، ہر 4 میں سے 3 اسکولوں میں حاجت خانوں اور ہر 4 میں سے 3 اسکولوں کو چار دیواری تک میسر نہیں ہے۔اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں اسکول جانے کی عمر کے 27 لاکھ بچے ہیں، جن میں 18 لاکھ اسکول نہیں جاتے۔ پرائمری اسکول میں داخلہ لینے والے 8 لاکھ 65 ہزار 3 سو 37 بچوں میں سے 57 فیصد پرائمری پاس کرنے سے قبل تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں، اسکول نہ جانے والے بچوں میں لڑکیوں کی شرح زیادہ ہے۔ 5 سے 16 سال کی عمر کی 62 فیصد لڑکیاں اسکولوں سے باہر ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں لڑکیوں کے داخلے کی شرح 35 فیصد ہے جوکہ ہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے صرف 4 فیصد رہ جاتی ہے۔قوم پرستوں کی قیادت میں قائم موجودہ حکومت نے صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کیا ہے مگر آج بھی بلوچستان میں اندازاً 216 فرضی یا غیر فعال اسکول ہیں۔ صوبے کا تعلیمی معیار پورے ملک میں سب سے زیادہ خراب ہے اور تعلیمی درجہ بندی کے لحاظ سے بلوچستان کا کوئی بھی ضلع اوپر کے درجوں میں نہیں آتا۔ تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود بلوچستان کے اسکولوں میں ہر روز 14 فیصد اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں، اساتذہ کی کمی اور تعلیمی ابتری کے باعث زیر تعلیم طلبا کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے، جس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ پانچویں میں زیر تعلیم 51 فیصد بچے اردو کہانی روانی سے نہیں پڑھ پاتے، 71 فیصد انگریزی کا ایک بھی جملہ روانی سے نہیں پڑھ سکتے اور 61 فیصد ایسے ہیں جو ریاضی کے عام سوال بھی حل نہیں کر سکتے۔ ماہرین تعلیم کے مطابق اس پریشان کن صورتحال کی مختلف وجوہات ہیں جن میں اسکولوں کی کمی، اسکولوں میں سہولیات کی عدم فراہمی، اساتذہ کی کمی اور غیر حاضری، سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں اور مڈل و ہائی اسکولوں کے طویل فاصلے پر قائم ہونے جیسے محرکات سرفہرست ہیں۔ بلوچستان میں تعلیم مکمل کیے بغیر اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد انتہائی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ پرائمری اسکول میں داخلہ لینے والے بچوں کی تعداد 8 لاکھ 65 ہزار 337 ہے، مڈل اور سکینڈری اسکول میں پہنچ کر یہ تعداد تقریباً 7 لاکھ کم ہوکر صرف ایک لاکھ 91 ہزار 300 رہ جاتی ہے۔اسکول میں داخلہ لینے والے 57 فیصد بچے پرائمری پاس کرنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ صوبہ میں لڑکوں کی شرح 34 فیصد ہے، صرف 23 فیصد لڑکیاں ایسی ہیں جو کبھی اسکول گئی ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں 61 فیصد لڑکے ایسے ہیں جو کبھی اسکول گئے ہیں۔ بلوچستان میں گورنمنٹ اسکولوں کی تعداد ضرورت سے بہت کم ہے۔ تعلیم کی ناکافی فراہمی نہایت سنگین مسئلہ ہے۔ بلوچستان میں گورنمنٹ اسکولوں کی کل تعداد 12347 ہے جن میں سے صرف 6 فیصد ہائی اسکول ہیں، زیادہ تر بچے گورنمنٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ 5 سے 16 سال کی عمر کے 76 فیصد بچے گورنمنٹ اسکولوں میں جب کہ 19 فیصد پرائیوٹ اسکولوں میں جاتے ہیں اور صرف 5 فیصد بچے مدرسوں میں داخل ہیں، زیادہ تر لڑکیاں تعلیم مکمل کیے بغیر اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ پرائمری اسکول میں خواتین کے داخلے کی شرح 35 فیصد ہے جوکہ مڈل اسکول کی سطح پر 9 فیصد اور ہائی اسکول میں جاکر صرف 4 فیصد رہ جاتی ہے۔جبکہ بلوچستان میں سکولوں کی تعداد اور ان میں پڑھائی کا رواج بھی بہت کم ہیں۔بلوچستان یونیورسٹی 1990ء تک واحد یونیورسٹی تھی جو صوبے کے ہزاروں طلبہ اور طالبات کو اعلی تعلیمی سہولیات فراہم کرتی تھی مگر بعد میں سردار بہادر خان وومین یونیورسٹی انجنیئرنگ یونیورسٹی خضدار آئی ٹی یونیورسٹی سائنس یونیورسٹی اوتھل بھی قائم ہوئے ۔ اس لحاظ سے جامعہ بلوچستان کو صوبے کے تعلیمی اداروں کی ماں ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس یونیورسٹی کے90 فیصد طلبہ اور طالبات مختلف اداروں میں کام کررہے ہیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں اس یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبہ مختلف تحقیقی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے گوادر میں نئے یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے مگرکیا پرانی یونیورسٹیوں کو ری ماڈل نہیں کیا جا سکتا کیا ان یونیورسٹیوں میں سی پیک کی وجہ سے چینی زبان سکھائی جائے گی یا یہ یونیورسٹیاں صرف ڈگریاں دیتی رہیں گی جو کسی بھی کام کے نہیں ہونگے۔وطن عزیز میں شعبہ تعلیم کا مجموعی معیار کسی طور پر تسلی بخش نہیں۔ قومی ترقی میں کلیدی اہمیت کا حامل تعلیمی شعبہ عملاً طبقات میں تقسیم ہوچکا۔ مثلاً ایک طریقہ تعلیم اس اشرافیہ کے بچوں کے لیے مختص ہے جس کے لیے بے دریغ پیسے کااستعمال کسی طور پر مسئلہ نہیں لہذا انھیں ملک کے اندر اور ملک سے باہر بھی بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے میں ذرا بھر پریشانی نہیں۔اگر بلوچستان میں تعمیر وترقی کا خواب حقیقی معنوں میں شرمندہ تعبیر کرنا ہے تو تعلیم نہیں میعاری تعلیم کے فروغ کو ہدف بنانا ہوگا۔