|

وقتِ اشاعت :   April 26 – 2017

ترکی میں پولیس نے ایک ہزار افراد کو حکومت کے مخالف رہنما فتح اللہ گولن کی تحریک سے روابط کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ ترک حکومت امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن پر گذشتہ برس صدر اردوغان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کروانے کا الزام لگاتی ہے۔ یہ گرفتاریاں ترک صدر کے متنازع ریفرینڈم میں کامیابی کے بعد ملک میں ان کے مخالفین پر پہلا بڑا کریک ڈاؤن ہے اور اس کا ہدف ملک کی پولیس فورس میں فتح اللہ گولن کے حامی ملازمین تھے۔ اس ریفرینڈم کے بعد صدر اردوغان اب ملک کے ایک انتہائی بااختیار سربراہِ مملکت بن سکتے ہیں۔ ترک حکام کے مطابق پولیس کو ابھی مزید 2200 افراد کی تلاش ہے جن میں سے اکثریت کا تعلق ترک پولیس فورس ہی ہے۔ ترکی کے وزیرِ داخلہ سلیمان سوئلو کا کہنا ہے کہ ‘ملک کے 72 صوبوں سے اب تک 1009 خفیہ ‘امام’ حراست میں لیے جا چکے ہیں۔’ انھوں نے اس کارروائی کو ترکی کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ترک پولیس نے ملک کے 81 صوبوں سے تعلق رکھنے والے 3224 افراد کی فہرست تیار کی ہے اور صرف دارالحکومت استنبول سے اسے 390 مشتبہ افراد کی تلاش ہے۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے حکومت گولن تحریک پر ملک کے اہم اداروں بشمول پولیس، فوج اور عدلیہ میں اس کے حامیوں کی موجودگی اور ریاست کے اندر ریاست چلانے کے الزامات لگاتی رہی ہے۔ بدھ کو ہونے والے تازہ ترین کریک ڈاؤن سے کچھ دیر قبل صدر اردوغان نے کہا کہ ‘ہم افواج، عدلیہ اور پولیس کو گولن تحریک کے ارکان سے پاک کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔’ ترک حکام کے مطابق ناکام بغاوت کے بعد سے اب تک 47 ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں 10700 پولیس اہلکار اور 7400 فوجی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ہزاروں ملازمین کو بھی حکومت مخالف قرار دیتے ہوئے برخاست کیا گیا ہے جبکہ حزبِ اختلاف کے حامی میڈیا کو بھی بندشوں کا سامنا ہے۔