|

وقتِ اشاعت :   June 24 – 2017

کوئٹہ: کوئٹہ میں آئی جی پولیس کے دفتر کے سامنے کار بم دھماکے میں گیارہ پولیس اہلکاروں سمیت 14؍افراد جاں بحق جبکہ 25؍افرادزخمی ہوگئے۔

زخمیوں میں 9پولیس اہلکاروں سمیت 13سیکورٹی اہلکار، دو لڑکیاں اور ایک خاتون شامل ہیں۔ زوردار دھماکے سے کئی گاڑیاں ،رکشے اور موٹرسائیکلیں بھی تباہ ہوگئیں ۔

دھماکا خودکش تھا یا ریموٹ کنٹرول ،پولیس اب تک تعین نہ کرسکی۔ بارودی مواد سے بھری گاڑی جائے وقوعہ تک لانے والا کم عمر ڈرائیور کی گمشدگی بھی معمہ بن گئی۔بم ڈسپوزل ٹیم کے مطابق دھماکے میں سو کلو گرام سے زائد بارودی مواد ،نٹ بولٹ اور بال بیرنگز کا استعمال کیا گیا۔

پولیس حکام کے مطابق جمعہ کی صبح آٹھ بجکر چالیس منٹ پر کوئٹہ کے حساس علاقے گلستان روڈ پر سینٹرل پولیس آفس (سی پی او )کے سامنے شہداء چوک پر اس وقت دھماکا ہوا جب پولیس اہلکار آئی جی آفس کی دیوار ٹکرانے والی مشتبہ گاڑی کو چیک کررہے تھے۔

سی پی او میں ہی انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان احسن محبو ب کا دفتر بھی ہیں تاہم دھماکے کے وقت شہر میں موجود نہیں تھے ۔دھماکا اتنا شدید تھا کہ آواز ددور دور تک سنی گئی۔جائے وقوعہ پر ہر طرف تباہی پھیل گئی ۔فضاء میں گرد و غبار کے بادل دور دور تک دیکھے گئے ۔

دھماکے سے ایک ڈبل ڈور پک اپ سمیت دوگاڑیاں ،دو رکشے اور تین موٹر سائیکلوں کو شدید نقصان پہنچاجبکہ دھماکے میں استعمال ہونیوالی گاڑی کے پرخچے اڑ گئے ۔قریبی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ پولیس اور ایف سی کے علاوہ امدادی ٹیموں کے رضا کار فوری طور پر موقع پرپہنچے ۔

لاشوں اور زخمیوں کو سول اسپتال اور سی ایم ایچ پہنچایا گیا۔ پولیس حکام کے مطابق دھماکے کے نتیجے میں چودہ افراد جاں بحق جبکہ پچیس افراد زخمی ہوگئے۔ سول اسپتال کوئٹہ کے ترجمان ڈاکٹر وسیم احمد بیگ کے مطابق سول اسپتال میں تیرہ افراد کی لاشیں اور اکیس زخمیوں کو لایا گیا۔

اسپتال میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کرکے سینئر ڈاکٹرز سمیت تمام طبی اور نیم طبی عملے کو طلب کیاگیا ۔ڈاکٹر وسیم احمد بیگ کے مطابق اکیس زخمیوں میں سترہ زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کردیا گیا جبکہ چار زخمی راجن شاہ ، رحمت اللہ ،اسپیشل برانچ پولیس اے ایس آئی سرفراز اور جان محمد سول اسپتال کے ٹراما سینٹر میں زیر علاج ہے۔

ان میں جان محمد کی حالت تشویشناک ہے جنہیں ٹراما سینٹر کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق جاں بحق ہونیوالے تمام14افراد کی شناخت ہوگئی ۔

ان میں گیارہ پولیس اہلکار پولیس تھانہ کینٹ کے حوالدار کاشف ولد خالد، ٹریفک پولیس حوالدار فیصل، بلوچستان کانسٹیبلری حوالدار غلام شبیر، بلوچستان کانسٹیبلری ڈرائیور غنی خان، کانسٹیبل محمد نعیم ولد شاہجہان، ایم ٹی ڈرائیور ساجد علی ولد محمد رحیم ،کانسٹیبل لعل خان ،اے ایس آئی ٹیلی کمیونیکشن امین اللہ سکنہ وزیر آباد پنجاب،کانسٹیبل بلوچستان کانسٹیبلری محمد اسلم ولد محمد اسلامحم نیچاری سکنہ قلات، کانسٹیبل بلوچستان کانسٹیبلری ثناء اللہ ولد اللہ دویا لاشاری سکنہ موسیٰ خیل، بلوچستان کانسٹیبلری کانسٹیبل خادم حسین ولد عنایت اللہ کھوسہ سکنہ نصیرآباد شامل ہیں۔

دیگر مقتولین میں کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ملازم انورعلی سکنہ مری آباد، واپڈا ملازم سجاد حسین ولد سید ابراہیم ہزارہ سکنہ مری آباد کوئٹہ، محکمہ لائیو اسٹاک کے ڈاکٹر عبدالرحمان ولد عبدالعزیز شامل ہیں۔

زخمیوں میں بھی دو سب انسپکٹر زاور اوار ایک اے ایس اائی سمیت نو پولیس اہلکارعباس شاہ، سرفراز، نزیر احمد ،شکیل، محمد یاسر، راجن شاہ، اسھاق علی، سیال شامل ہیں جبکہ ایک خاتون اور دو لڑکیاں بھی زخمی ہوئیں جنہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کردیاگیا۔

پاک فوج کے چار اہلکار کیپٹن عرفان ،حوالدار عابد، حوالدار ساجد،نائیک نوید بھی دھماکے میں زخمی ہوئے جنہیں سی ایم ایچ اسپتال منتقل کیا گیا۔ چاروں زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔

دوسری جانب واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ایف سی کے اعلیٰ حکام جائے وقوعہ پر پہنچے۔ پولیس، اسپیشل برانچ، کرائم برانچ، سی آئی اے، سی ٹی ڈی اور پولیس کی دیگر تفتیشی ٹیموں موقع سے شواہد اکٹھے کئے ۔

دھماکے میں استعمال ہونیوالی گاڑی کے نمبر پلیٹ ، انجن اور چیسز نمبر معلوم کرنے کی کوشش کی گئی۔ کراچی کے دو رجسٹریشن نمبر پر شبہ ظاہر کیا گیا جنہیں سندھ ایکسائز کی مدد سے چیک کرایا جارہا ہے۔

شہری دفاع اور اسپیشل برانچ کی بم ڈسپوزل ٹیموں نے بھی جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد کا جائزہ لیا۔ شہری دفاع کے ڈائریکٹر جنرل محمد اسلم ترین کے مطابق دھماکا کار میں نصب دھماکا خیز مواد کے ذریعے کیا گیا۔ گاڑی میں سوار خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑایا ۔

دھماکے میں ستر سے اسی کلو گرام دھماکا خیز مواد، بال بیرنگز اور نٹ بولٹ استعمال کئے گئے۔ جبکہ پولیس کی بم ڈسپوزل ٹیم نے اس کے برعکس اپنی ابتدائی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دھماکے میں100سے120کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیاجبکہ دھماکے کی نوعیت کے بارے میں بھی پولیس کی بی ڈی ٹیم نے اپنی حتمی رائے نہیں دی۔

ذرائع کے مطابق پولیس کی تفتیشی ٹیمیں اب تک اس بات کا تعین نہیں کرسکی ہے کہ دھماکے کا ہدف کیا تھا۔ تفتیش اور کرائم سین کے ماہرین اب تک اس بات کی تصدیق نہیں کررہے ہیں کہ دھماکا خودکش تھا یا کار ریموٹ کنٹرول پلانٹڈبم۔

اب تک کی تفتیش سے باخبر سیکورٹی ادارے کے ایک آفیسر نے نمائندہ روزنامہ آزادی کو بتایا ہے کہ گاڑی میں سولہ سے سترہ سال کا لڑکا سوا ر تھا جس نے گاڑی آئی جی آفس کی دیوار کے ساتھ لگی آہنی رکاوٹوں کے ساتھ ٹکرائی اور اس سے گاڑی بند ہوگئی۔

اس دوران پیچھے ٹریفک کا رش لگ گیا ، موقع پر موجود اہلکار قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ کم عمر ڈرائیور اناڑی ہے اور وہ گاڑی کو ریسورس کرکے نکال نہیں پارہا۔

اس دوران آئی جی آفس سے نکلنے والے دو پولیس اہلکار موٹر سائیکل پر پہنچے جن میں سے ایک نے موٹر سائیکل پر اتر کر کم عمر ڈرائیور کی مدد کی اور اسے اتار کر خود گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے چوک کے دوسری جانب گلستان روڈ اور مشن روڈ کے سنگم پر کھڑی کردی۔