|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2017

اسلام آباد: وفاقی وزیرسیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقاد ر بلوچ نے تجویز دیتے ہوئے کہاہے کہ قومی اسمبلی میں بلو چستان کی نشستیں 17 سے بڑھا کر 31کی جائیں اور بلو چستان کے ہر اضلاع کے لئے ایک نشست مختص کی جائے، بلوچستان میں حلقے بہت بڑے بنائے گئے ہیں ، میرا حلقہ 15ہزار سکوائر کلومیٹر پر مشتمل ہے۔

، ایک رکن کیلئے عوام تک پہنچنا ناممکن ہے،بلوچستان کے لئے حلقوں کیلئے آبادی کا تناسب کم کیا جائے ، ایجنسیوں پر الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے الزامات غلط ہیں ان پر الزاما ت سے گریز کیا جائے، چند لوگ لاکھوں کے ووٹرز پر اثرانداز نہیں ہو سکتے ، تاثر ہے کہ خفیہ ایجنسیاں پی پی پی ، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے خلاف ہیں ۔

اگر ایجنسیاں الیکشن پر اثر انداز ہوں تو یہ پارٹیاں الیکشن کیسے جیت جاتی ہیں،مسلم لیگ (ن) چوتھی دفعہ حکومت بنائے گی، ایجنسیوں کو اپنا کام کرنے دیں ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں،ایجنسیوں پر الزام لگا نا پاکستان کے قوم کے کردار کو داغدار کرنے کے مترادف ہے ،بین الاقوامی سطح پر ایسی بات کر کے اپنا تاثر خراب کرتے ہیں ۔

ایم کیو ایم کے راہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ پاکستان کی سیاست میں 500خاندانوں کی اجارہ داری ختم کی جائے ، پاکستان کے غریب عوام سے وعدہ کیا گیاتھا کہ ان کو سیاست میں ایک برابر موقع فراہم کریں گے،۔ شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کے لئے بل سے بنیادی سقم نکانا ہوگا ورنہ2018کے الیکشن کے بعد سب لیکر پیٹتے رہیں گے، پاکستان میں موروثی سیاست کا غلبہ ہے اور وڈیروں اور جاگیرداروں کا سیاست پر تسلط ہے ۔

الیکشن میں پیسوں کی ریل پیل ختم کی جائے، جمہوریت کو چند راجواڑے بنانے کے بجائے لوگوں کو دہلیز پر لایا جائے،بل کے تحت ریٹرنگ آفیسرز کو خطرناک اختیارات دینا آئین کے منافی ہے ، سیاسی جماعتوں کے لئے انتخابا ت میں اخراجات کی حد مقررہونی چاہیے ، سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کیلئے نئے قانون میں کوئی طریقہ کار نہیں ہے ،خواجہ سراؤں انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اقدامات کئے جائیں ، فاٹا اصلاحات کے حوالے سے حکو مت عوام کو لالی پو پ دیا جا رہا ہے۔ 

ان خیالات کا اظہار انہوں نے انتخابات بل 2017پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔پیر کو قو می اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کی صدارت میں ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا۔ تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول کے بعد وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے انتخابات بل 2017 پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے مسائل اجاگر کرنا چاہتا ہوں ، اسمبلی میں بلوچستان کے اراکان اسمبلی کی تعداد17ہے جس میں سے 14 براہ راست منتخب ہو کر آئے ہیں ۔

بلوچستان میں حلقے بہت بڑے بنائے گئے ہیں ، میرا حلقہ 15ہزار سکوائر کلومیٹر پر مشتمل ہے ، ایک رکن کیلئے عوام تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے ، تحصیل کی سطح پر جانا بھی ہمارے لئے مشکل ہے ، حلقہ میں 50ہزار کلومیٹر سفر 40ہزار اخراجات میں کیسے ممکن ہے ، کمیٹی میں مسئلہ پیش کیا لیکن کسی کے پاس حل نہیں تھا ، اس مسئلہ کا حل نکالا جائے ۔

بلوچستان کے 31اضلاع کو قومی اسمبلی کی ایک نشست دی جائے ، 342کے ارکان میں سے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ، بلوچستان کے لئے حلقوں کیلئے آبادی کا تناسب کم کیا جائے ، 30کلومیٹر تک دوران پولنگ سٹیشن تک لوگ خود کیسے آئیں گے ، ٹرانسپورٹ مہیا کرنے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے ، الیکٹرانک ووٹ سسٹم بلوچستان میں بجلی وار سسٹم کے بغیر کیسے چلے گا ۔

قانون حالات کے مطابق بنائے جائیں ، یہاں پر الیکشن کے حوالے سے ایجنسیوں کے خلاف بات کی گئی ۔ ایجنسیوں پر الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے الزامت غلط ہیں ۔

چند لوگ لاکھوں کے ووٹرز پر اثرانداز ہونے کے الزامات غلط ہیں ۔ تاثر ہے کہ ایجنسیاں پی پی پی ، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے خلاف ہیں ، اگر ایجنسیاں اثر انداز نہ ہوں تو یہ پارٹیاں الیکشن کیسے جیت جاتی ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) چوتھی دفعہ حکومت بنائے گی ، ایجنسیوں پر الزام لگان پاکستان کے قوم کے کردار کو داغدار کرنے کے مترادف ہے ۔

بین الاقوامی سطح پر ایسی بات کر کے اپنا تاثر خراب کرتے ہیں ۔ ایجنسیوں کو اپنا کام کرنے دیں ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔ غوث بخش مہر نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں بلوچستان کی نشستوں میں اضافے کیلئے خصوصی ترمیم کرنی پڑے گی ، جب تک ریٹرنگ آفیسر کو ذمہ دارنہیں بنائیں گے اس وقت الیکشن شفاف نہیں ہوسکیں گے ۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ بل کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں ، ملک میں اسٹیٹس گوادر ڈھاک ازم کو ختم کیا جائے ۔ 

پاکستان کی سیاست میں 500خاندانوں کی اجارہ داری ختم کی جائے ، پاکستان کے غریب عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو سیاست میں ایک برابر موقع فراہم کریں گے اور وہ منتخب ہو کر آسکتے ہیں ۔ نئے قانون سے آئندہ انتخابات پر زیادہ اثر نہیں پڑنے والا ہے ۔ شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کے لئے بل سے سقم نکانا ہوگا ورنہ2018کے الیکشن کے بعد سب لیکر پیٹتے رہیں گے ۔ بنیادی مسائل کو بل میں حل نہیں کیا گیا ۔ موروثی سیاست کا غلبہ ہے اور وڈیروں اور جاگیرداروں کا سیاست پر تسلط ہے اس کو ختم کرنا ہے ۔ الیکشن میں پیسوں کی ریل پیل نہ ہو ۔

ان بنیادی مسائل کے حل کے بغیر انتخابات شفاف اور غیر جانبدار نہیں ہوسکتے ۔ جمہوریت کو چند راجواڑے بنانے کیلئے استعمال نہیں کرنا بلکہ لوگوں کو دہلیز پر لانا ہے ۔

زرعی اصلاحات کے بغیر چھوٹا زمیندار اور کسان کبھی بھی الیکشن نہیں لڑسکتا ۔ فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ میں ٹیکس کے لئے جاگیردار کو بھی ڈالا جائے ۔ مقامی حکومتوں کو بھی اختیارات منتقل کئے جائیں ۔ بل کے تحت ریٹرنگ آفیسرز کو خطرناک اختیارات دیے جا رہے ہیں اور وہ کسی بھی معاملہ پر سوموٹو لے سکتے ہیں اور کسی کی بھی نااہلی قرار دے سکتا ہے ۔ یہ آئین کے منافی ہے ۔ 

سیاسی جماعتوں پر ٹی وی پر اشتہارات پر پابندی عائد کی جائے ۔ سیاسی جماعتوں پر اخراجات کی کوء حد ہونی چاہیے ، سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کیلئے نئے قانون میں کوئی طریقہ کار نہیں ہے ۔

اقلیتوں کی نشتیں بڑھائی جائیں اور براہ راست ان کو اپنی آبادیوں سے ووٹ لینے کا اختیار دیا جائے ۔ خواجہ سراؤں کیلئے اقدامات کئے جائیں ، فاٹا اصلاحات کے حوالے سے حکو مت عوام کو لالی پو پ دیا جا رہا ہے ۔ 

شازیہ مری نے کہا کہ شہروں میں بھی اجارہ داری قائم ہے ، کراچی میں دیہاتیوں سے ایک جماعت نے اجارہ داری قائم کی ہے ۔ وہاں پر جاگیردار اور وڈیرے نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ الیکشن آر اوز کے الیکشن تھے لیکن جمہوریت کے مفاد میں انتخابات کے نتائج کو قبول کیا ۔