|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2017

ازل سے رچ گئی ہے سربلندی اپنی فطرت میں 
ہمیں بس ٹوٹنا آتا ہے پر، جھکنا نہیں آتا
زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے انسان جب جنم لیتا ہے اس دنیا میں داخل ہوتا ہے وہ آزاد اور خودمختار ہوتا ہے لیکن اگر اس کی قوم غلام ہے تو وہ بھی غلام ہی کہلائے گا اگر آزاد ہے تو آزادی کی فضاء میں جنم لیتا ہے وہ شخص جس نے آزادی کی فضاء میں جنم لیا ہے وہ تو خوش قسمت ہے لیکن دوسری جانب بد قسمت وہ لوگ ہیں جو غلامی میں جنم لیتے ہیں اور دوسروں کے دست نگر رہ کر محکومی ‘ محرومی اور غلامی کی زندگی گزارتے ہیں ۔ 

ایک عظیم مفکر کا کہنا ہے کہ آزادی کی راہ میں مرنا غلامی کے سائے میں جینے سے لاکھ درجہ بہتر ہے اور جو شخص ہاتھ میں بندوق لیے موت سے گلے ملتا ہے وہ حق کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہتا ہے کیونکہ صرف دنیا میں سانس لینا زندگی نہیں زندگی کے مقصد کو سمجھنا ‘ ظلم و بربریت کے خلاف لڑنا ‘ موت سے نہ ڈرنا ‘ تکلیف اور مشکلات کا سامنا کرنا حق اور سچائی کی خاطر جان دینا اور انصاف کی خاطر مرنا ہی اصل زندگی ہے ۔

اس لیے دنیا کے با شعور انسان دوست ‘ باضمیر ‘ غیر ت مند آزادی پسند اور انقلابی انسان قومی آزادی اور انسانی خوشحالی کے لئے اپنے زندگی کو قربان کرکے تاریخ میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں انسانی تاریخ کی جدو جہد کی تحریکوں میں عمر مختار ‘ لینن ‘ پربھاکر ‘ ماوزئے تنگ نیلسن منڈیلا ‘ چے گویرا‘ فیڈرل کاسترو ‘ میر بالاچ خان مری اور نواب خیر بخش مری اور بلوچ قومی تحریک کے قائد سپہ سالار شیر بلوچستان نواب محمد اکبر خان بگٹی سمیت ہزاروں انقلابیوں نے وقت کے قابض آمروں کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے تبدیلیاں لائی ہیں ۔ 

دنیا میں ایسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں جو دنیا کو تبدیل کرنے والوں میں سے شمار ہوسکیں اور وہ لوگ جواس دنیاکو بہتر سے بہتر بنانے اور انسان و قوموں کی خوشحالی کے لئے اور اپنی قومی بقاء کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور یہی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے منزل مقصود تک پہنچ جائیں یوں تو سرزمین بلوچستان کی سیاسی او رجغرافیائی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے ۔

بلوچ قوم نے ہر دور میں چاہے وہ انگریزی دور ہو یا موجودہ ریاست پاکستان کی جمہوریت ‘ چاہے وہ آمر فوجی جتنا دور حکومت ہو ، بلوچوں کا خون ہر دورمیں پانی کی طرح بہتا رہا ہے ۔ مگر سب سے درد ناک واقعہ 26اگست 2006ء کا ہے جب بلوچستان اور بلوچ قوم پروہ سیاہ رات قیامت بن کر اتری اور کالی پرچھائیوں کی چھاپ چھوڑ کر دکھوں اور غموں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پر درد مہینہ ثابت ہوا ۔

عظیم قائد اور رہبر بزرگ رہنما’’ نواب اکبر خان بگٹی اپنے ناتواں کندھوں بلوچ سرزمین کا قرض اتارنے جارہے تھے ‘ کتنا پر سکون لمحہ رہا ہوگا جب ایک شیر مجاہد نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہادت کا رتبہ حاصل کیا جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس پیر مرد نواب نے اپنی ساری زندگی مرضی سے گزاری اور موت کا انتخاب بھی خود کیا ،کینسر کے ہاتھوں مرنے کے بجائے پہاڑوں میں اپنے سے کئی گنا طاقتور قوت سے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کیا۔ 

مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ شہید اعظم نواب اکبر خان بگٹی نے بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ بستر پر سسک سسک کر مرنے سے بہتر ہے کہ پہاڑوں پر جا کر سرزمین بلوچستان اور بلوچ قوم کے لئے جان دی جائے۔ نواب بگٹی نے اپنی قوم کے لئے وہ قربانی دی ہے جو بلوچستان کی تاریخ میں سب سے بڑی قربانی ہے بلوچ دنیا میں کہیں بھی ہیں شہید نواب بگٹی کی شہادت کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہیں ۔ 

نواب اکبر خان بگٹی بلوچ قوم کے ایسے ہیرو کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہیں گے جنہوں نے اپنے بلوچ قوم کی عزت اور ننگ وناموس کے لئے سرکٹوانا تو قبول کیا مگر سرجھکانا نہیں ۔

نواب شہید ایک بہادر، جہاندیدہ اور زیرک رہنما ء تھے انہوں نے ہمیشہ بات چیت کے ذریعے بلوچستان کے مسائل اور عوامی معاملات حکمرانوں کے سامنے رکھے لیکن اسی سال کی عمر میں جب انہوں نے تمام راستے بند پائے توسر اٹھائے پہاڑوں کا رخ کیا، ایک شان کے ساتھ جان دے دی اور بلوچستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرگئے اور اسی تاریخ میں سدا کے لیے امر ہوگئے۔

شہید اعظم نواب اکبر خان بگٹی ہمیشہ کہتے تھے کہ مرنا ہرکسی کو ہے اور انسان چاہے کہیں بھی چلا جائے لیکن موت اسے ضرور ڈھونڈ نکالتی ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ مرنے کے وقت اسے یہ احساس ہو کہ وہ اپنی قوم، وطن کی خاطر کچھ کرکے جارہا ہے اور آنیوالی نسلوں کے لئے ایک نیا راستہ کھول کر جارہا ہے ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ‘ 
Learning history is so easy but making history is so difficult. Let us make a history of ourselves and make others to learn it.
یعنی تاریخ پڑھنابہت آسان ہے لیکن تاریخ رقم کرنا انتہائی مشکل ‘ چلوہم اپنی ایک تاریخ رقم کرتے ہیں تاکہ دوسرے اس کو سیکھ سکھیں ۔