|

وقتِ اشاعت :   December 12 – 2017

حال ہی میں ایرانی بلوچستان میں چاہ بہار بندر گاہ کے پہلے مرحلے کا افتتاح ایرانی صدر حسن روحانی نے کیا۔ اس افتتاحی تقریب میں پاکستانی وفد نے وزارتی سطح پر شرکت کی اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کوئی معاشی مسابقت نہیں ہے ۔

چاہ بہار بندر گاہ پاکستان کے مفادات کے خلاف نہیں ہے آنے والے دنوں میں پاکستان چاہ بہار میں موجود سہولیات سے استفادہ کر سکتا ہے ۔ اسی طرح ایران بھی گوادر کی وسیع تر بندر گاہ سے آنے والے دنوں میں فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ تاہم ایران کی خواہش پر پاکستانی وفدکی افتتاحی تقریب میں شرکت سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات دوستانہ اور قریبی ہیں اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید توسیع کی توقع ہے ۔ 

پاکستان یہ توقع رکھتا ہے کہ ایران کے اندر پاکستان کے جائز مفادات کا تحفظ کیا جائے گا خصوصاً بھارت ایران کی سرزمین اور اس کی دیگر سہولیات کو پاکستان کے خلا ف استعمال نہیں کرے گا۔ دنیا میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات نے پاکستان اور ایران کو زیادہ قریب کردیا ہے اور آنے والے دنوں میں تعلقات مزید مستحکم ہونگے ۔ 

بھارت چاہ بہار بندر گاہ کی توسیع پر پچاس کروڑ ڈالر خرچ کررہا ہے ،اس بندر گاہ میں بھارت کے لئے دو برتھ مختص کردیئے گئے ہیں جہاں پرصرف تجارتی کارگو سامان کی ترسیل کرینگے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے گندم سے بھرے دو بحری جہاز افغانستان کے لئے روانہ کیے اور وہ گندم ایران کے راستے افغانستان پہنچ گئی۔ 

بھارت چاہ بہار بندر گاہ کو ریلوے لائن کے ذریعے زاہدان سے ملانے کے پروجیکٹ پر کام کررہا ہے یہ ریلوے لائن ہمارے کوئٹہ ‘ زاہدان سیکشن کے ہم پلہ ہوگی ۔ چونکہ کوئٹہ ‘ زاہدان سیکشن کو گزشتہ ستر سالوں میں اپ گریڈ نہیں کیا گیا اس لیے ایران نے چاہ بہار ‘ زاہدان ریلوے کاکام بھارت کو سونپ دیا ہے ۔

ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات زیادہ بہتری کی طرف رواں دوں ہیں ان میں زیادہ خوشگوار تبدیلی فو ج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ تہران سے شروع ہوا۔ 

ایران اور پاکستان بعض معاملات خصوصاً سیکورٹی کے حوالے سے یکساں موقف رکھتے ہیں اس لیے پاکستان پورے خطے میں امن کے فروغ کے لئے ایران سے تعاون کرتا رہے گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اس راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے گوکہ پاکستان سعودی عرب کی سربراہی اتحاد میں شامل ہے ۔ 

لیکن ایران کے ساتھ تعلقات میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا ۔ ادھر ایران مخالف عناصر اس بات کا پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ایران کی خواہش ہے کہ ایران ‘ عراق ‘ پاکستان اور ترکی کے درمیان کسی قسم کا فوجی اتحاد ہو ۔ ایران کا مقصد امریکا اور اس کے ناٹو اتحادیوں کو پورے خطے سے بے دخل کرنا ہے ۔

ایران کا خیال ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو بے دخل کیے بغیر پورے خطے میں دائمی امن کا قیام ممکن نہیں ہے اس لیے ایران خطے کے ممالک خصوصاً اپنے پڑوسیوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور سیکورٹی کے معاملات پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ 

اسی سلسلے میں اگلے دن ترکی اور ایران کے درمیان سیکورٹی کے معاملات زیر بحث آئے ۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت پاکستان ایران کی خواہش پر سرحدی علاقوں میں اپنے دفاع کو زیادہ مستحکم بنا رہا ہے خصوصاً ایران اور افغانستان سے متصل سرحدوں پر توجہ دے رہا ہے کیونکہ زیادہ تر دہشت گرد افغانستان سے آتے ہیں جہاں ان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔

اس کے علاوہ مغربی سرحد پرتوجہ دینے کاایک مقصد ساحل مکران کے تجارتی راستوں کو محفوظ بنانا اور اس میں ہر قسم کی دراندازی کوناکام بنانا بھی ہے ۔ تاہم ایران کواپنے مسائل کا سامنا ہے خصوصاً یمن کے واقعات اور وہا ں خانہ جنگی نیزسعودی زمینی اور ہوائی حملوں نے سیکورٹی کے معاملات کو زیادہ گھمبیر بنا دیا ہے ۔