|

وقتِ اشاعت :   December 29 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان میں 2017ء میں تین سو سے زائد دہشتگرد حملوں میں مجموعی طور پر 264افراد جاں بحق اور 573 افراد زخمی ہوئے۔ 

جاں بحق ہونیوالوں میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے 110 اہلکار بھی شامل ہیں جن پر مجموعی طور پر 95 حملے کئے گئے۔ ان میں 205 اہلکار زخمی بھی ہوئے۔دہشتگردی اور سبوتاژکے واقعات میں گزشتہ سال کی نسبت 2017ء میں نو فیصد اضافہ تاہم ان واقعات میں ہلاکتوں میں بیس فیصد تک کمی آئی ہے۔

آباد کاروں اور ہزارہ برادری پر حملوں میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ ہواہے۔ محکمہ داخلہ بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے جون یعنی سال کے پہلے چھ ماہ میں بلوچستان میں102دہشتگرد حملوں میں 98 افراد جاں بحق اور 179 افراد زخمی ہوئے۔ جبکہ جولائی سے پچیس دسمبر تک 109دہشتگرد حملوں میں 166 افراد جاں بحق اور 394 افراد زخمی ہوئے۔ 

یعنی سال کے پہلے ششماہی کے مقابلے میں آخری ششماہی میں صوبے میں دہشتگردی کے واقعات میں ہلاکتوں میں 69فیصد تک اضافہ ہوا۔ ایک ماہ میں سب سے زیادہ 48 دہشتگردی کے واقعات اگست میں پیش آئے جن میں 28افراد جاں بحق اور55 زخمی ہوئے جبکہ سب سے زیادہ 40 ہلاکتیں اکتوبر کے مہینے میں ہوئیں۔ 

اس کے بعد مئی،نومبر،جون،اگست اور دسمبر میں بالترتیب 39، 38 ،28، 28 اور23 افراد دہشتگرد حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر 95 حملے کئے گئے جن میں 110اہلکار جاں بحق اور205 زخمی ہوئے۔ 

2016ء میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر104 حملوں میں 167 اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اس طرح گزشتہ سال کی نسبت رواں سال قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ہلاکتوں میں 34فیصد تک کمی آئی ہے۔ 

2017ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سب سے زیادہ 63 حملے ایف سی پر ہوئے جن میں 27ایف سی اہلکار جاں بحق اور 83زخمی ہوئے۔ایف سی پنجگور رائفلز کے لیفٹیننٹ کرنل بھی فرائض کی انجام دہی کے دوران جاں بحق ہوئے۔ جبکہ پولیس پر 18 حملے ہوئے جن میں 52 پولیس اہلکار جان سے گئے۔ 83 اہلکار زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ 21 اہلکاروں کی موت جون میں دو دہشتگرد حملوں میں ہوئی۔

اس سال بلوچستان میں ڈی آئی جی ٹیلی کمیونیکشن حامد شکیل، ایس ایس پی قلعہ عبداللہ ساجد خان مہمند، ایس پی قائد آباد کوئٹہ مبارک شاہ، ایس پی انویسٹی گیشن سٹی کوئٹہ محمد الیاس ،ڈی ایس پی عمر الرحمان، سی ٹی ڈی انسپکٹر عبدالسلام بنگلزئی سمیت اعلیٰ پولیس آفیسران بھی دہشتگردی کا نشانہ بنے۔

علاوہ ازیں پاک فوج پر چار دہشتگرد حملے ہوئے جن میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت انیس اہلکار جاں بحق اور 35 زخمی ہوئے۔ اسی طرح دس حملوں میں لیویز کے 12 اہلکار لقمہ اجل بنے اور6زخمی ہوئے۔ کوسٹ گارڈ پر اس سال کوئی حملہ نہیں ہوا۔ پولیس کیلئے سب سے بھاری سال 2016ء کا تھا جس میں 48 حملوں میں پولیس کے 125 جوان جاں بحق اور 203 زخمی ہوئے۔ 

اس طرح گزشتہ سال کی نسبت2017ء میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں میں 58فیصد تک کمی آئی ہے۔ اس سال ایف سی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں بھی 12فیصد تک کمی آئی ہے۔ 

رواں سال آبادکاروں یعنی سیٹلرز پرحملوں کے پانچ واقعات پیش آئے جن میں7افراد جاں بحق اور10زخمی ہوئے جبکہ اس سال ہزارہ قبیلے کے افراد پر 8 حملے ہوئے جن میں 15 افراد جاں بحق اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔ اگرچہ 2013ء کی نسبت سال 2017ء میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ہلاکتوں میں 93فیصد کمی آئی ہے۔

2013ء میں خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ہزارہ قبیلے کے 231افراد جاں بحق اور 445زخمی ہوئے تھے۔تاہم تشویشناک امر یہ ہے کہ 2016ء کی نسبت 2017ء میں ایک بار پھر ہزارہ برادری پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال نہ صرف گزشتہ سال کی نسبت تین حملے اضافی ہوئے بلکہ ہلاکتیں بھی گزشتہ سال سے دگنی ہوئی ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں نو خودکش حملوں سمیت 37 بم دھماکے ہوئے جن میں مجموعی طور پر 54 افراد جاں بحق اور 164 زخمی ہوئے۔ اس طرح دیسی ساختہ بم دھماکوں میں 2015ء کی نسبت 37فیصد تک کمی آئی ہے۔ 2015ء میں 162 بم دھماکے ہوئے تھے۔ 2013ء میں یہ تعداد 435 اور 2009ء میں تو 582تھی۔

محکمہ داخلہ کے مطابق رواں سال بارودی سرنگ دھماکوں کے 67 واقعات میں 18 افراد جاں بحق اور 109 افراد زخمی ہوئے۔ دستی بم کے 30 حملوں میں 2 افراد جاں بحق اور 72 زخمی ہوئے۔ مختلف شہروں میں سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹو ں اور شہری آبادیوں پر38 راکٹ بھی داغے گئے جن میں ایک شخص جاں بحق اور 9افراد زخمی ہوئے۔

سڑک کنارے نصب 8 بم دھماکوں میں 4 افراد جاں بحق اور7افراد زخمی ہوئے۔ دہشتگردی کے دیگر 8 واقعات میں 48 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہوئے۔ ان میں مسیحی برادری کے چرچ پر حملے میں جاں بحق ہونیوالے نو افراد اور تربت میں کالعدم تنظیم کے ہاتھوں قتل ہونیوالے بیس مزدور بھی شامل ہیں۔

رواں سال بلوچستان میں نو خودکش حملے ہوئے جن میں چھ حملے کوئٹہ میں ہوئے۔باقی تین خودکش حملے چمن میں ایس ایس پی ساجد مہمند،جھل مگسی میں درگاہ فتح پور اور مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین عبدالغفور حیدری پر ہوئے۔

کوئٹہ میں چمن ہاؤسنگ اسکیم میں ڈی آئی جی حامد شکیل، سریاب میں ایف سی کمانڈنٹ کرنل اشتیاق ،پشین اسٹاپ پر پاک فوج کے ٹرک، گلستان روڈ پر آئی جی آفس اور سبی روڈ پر بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک پر اور زرغون روڈ پر میتھوڈیسٹ چرچ پر خودکش حملے ہوئے۔ محکمہ داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق سرکاری تنصیبات پر حملوں میں گزشتہ سالوں کی نسبت کمی آئی ہے۔ 



ستمبر میں ٹرین پر ایک حملہ کیا گیا جس میں چھ افراد زخمی ہوئے۔ریلوے پٹڑی کو دھماکے سے اڑانے کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا۔ کیسکو کی تنصیبات پر سات حملوں میں دو افراد زخمی ہوئے جبکہ ٹاورز کو بھی نقصان پہنچایاگیا۔ گیس پائپ لائنوں کو دھماکوں سے اڑانے کے چھ واقعات رپورٹ ہوئے۔ 

موبائل فون ٹاور بھی پر بھی ایک حملہ ہوا۔سرکاری اعداد و شمار کے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2016ء کے مقابلے میں 2017ء میں دہشتگردی کے واقعات میں اگرچہ نو فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم ہلاکتوں میں گزشتہ سال کی نسبت اس سال بیس فیصد تک کمی آئی ہے۔ 

بلوچستان میں اس دہائی کا سب سے خونریز سال 2013ء تھا جس میں دہشتگرد حملوں میں 530 افراد لقمہ اجل بنے اور1162 زخمی ہوئے۔ 2013ء اور 2017ء کا موازانہ کیا جائے تو دہشتگرد حملوں میں ہلاکتوں میں 50فیصد تک کمی آئی ہے۔ 

2007ء کے بعد دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی 2015ء میں دیکھی گئی تھی جب پورے سال میں صرف 202 افراد جاں بحق اور 310 زخمی ہوئے تھے۔ 2016ء میں اس تعداد میں دوبارہ اضافہ ہوا جب 276دہشتگرد حملوں میں 331 افراد جاں بحق اور 670 افراد زخمی ہوئے۔