|

وقتِ اشاعت :   January 18 – 2018

پشاور:  پاک امریکا تعلقات میں تعطل کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان میں مقیم 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین پر توجہ مرکوز ہوگئی ہے کیونکہ وفاقی حکومت نے ان کی واپسی کے لیے ایک ہنگامی پلان بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اس حوالے سے ریاستی اور سرحدی علاقوں (سیفرون) کی وزارت کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ حکومت ملک میں مقیم پناہ گزینوں کے قیام میں مزید توسیع نہیں دے گی۔

انہوں نے کہا کہ 31 جنوری کے بعد ان کے قیام کی مدت میں توسیع نہیں کی جائے گی اور پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس جانا پڑے گا۔

خیال رہے کہ پناہ گزینوں کی قانونی طور پر قیام کی مدت گزشتہ برس 31 دسمبر 2017 کو ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد وفاقی کابینہ نے ان کے ملک میں قیام کو صرف ایک ماہ کے لیے بڑھا دیا تھا۔

ابتدائی پلان کے مطابق سیفرون کی وزارت نے رجسٹرڈ پناہ گزینوں کے قیام میں ایک سال کی توسیع کا مشورہ دیا تھا، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کو ایک سال کی توسیع نہیں دی جائے گی۔

اس حوالے سے پناہ گزینوں کے چیف کمشنر سلیم خان کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام وفاقی کابینہ کو معاملہ بھیجنے سے پہلے ان کی واپسی کا پلان تیار کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مشاورت کے بعد پناہ گزینوں کی واطن واپسی کے منصوبے پر عمل درآمد ہو گا۔

حکام کی جانب سے ایک اندازے کے مطابق 25 لاکھ سے زائد افغان شہری ہمارے ملک میں رہائش پذیر ہیں ، جس میں رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی تعداد 14 لاکھ ہے۔

اس کے علاوہ حکومت نے گزشتہ برس اگست ایک طویل مہم کے آغاز کے بعد 7 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان باشندوں کو رجسٹرڈ کیا تھا۔

سیفرون کی وزارت کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ہنگامی پلان چاروں صوبوں کے متعلقہ حکام اور سیاسی قیادت کی مشاورت کے بعد تیار کیا جائے گا۔اس بارے میں ایک اور اہلکار کا کہنا تھا کہ لاکھون افغان کی واپسی آسان کام نہیں ہے اور اس میں کم از کم ایک سال درکار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سہ فریقی معاہدے کے تحت حکومت پناہ گزینوں کو زبردستی پاکستا چھوڑنے پر مجبور نہیں کرسکتی، ان کا کہنا تھا کہ کانٹی جنسی پلان افغان شہریوں کی واپسی کے لیے ایک روڈمیپ فراہم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہنگامی پلان تین حصوں پر مشتمل ہوگا، جس میں فہرستوں کی تیاری، پناہ گزینوں کے رہائشی علاقوں کی شناخت اور انہیں کیسے واپس بھیجا جائے شامل ہوگا۔

خیال رہے کہ افغان شہریوں کے برے وقت کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب سال نو پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

جس کے بعد وفاقی کابینہ کے یکطرفہ فیصلے سے افغان شہری اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزینوں نے بھی پریشانی کا اظہار کیا ۔

جبکہ پشاور میں پناہ گزینوں کے عمائدین نے بھی اس فیصلے پر ناراضی کا اظہار کیا اور ایک شورہ بنانے کا اعلان کیا جو مہم کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈال سکے کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔

شوریٰ کے رکن ملک عبدالغفار شنواری کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کی مکمل بحالی تک پناہ گزینوں کی واپسی ممکن نہیں، اس حوالے سے ہمارے عمائدین سینئر حکام، سیاست دانوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کریں گے اور پناہ گزینوں کے قیام میں توسیع پر بات چیت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو پناہ گزینوں کے قیام میں 3 سے 5 سال تک توسیع کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان کے حالات ایک عام آدمی کی رہائش کے لیے موضوع نہیں ہے۔

دوسری جانب وفاقی کابینہ کے فیصلے پر یو این ایچ سی آر نے بھی تحفظات کا اظہار کیا، اقوام متحدہ کی ایجنسی کے ترجمان قیصر آفریدی نے ایک پیغام میں کہا کہ یو این ایچ سی آر کو اس بات پر تحفظات ہیں کہ کیسے 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو صرف ایک ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً 14 لاکھ افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں، جو اپنے مستقبل سے متعلق غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ 30 نومبر 2017 کو ہونے والے 29 ویں سہ فریقی کمیشن کے اجلاس پر بھی اثر انداز ڈالے گا، جس کے مطابق افغان پناہ گزینوں کو کم از کم ایک سال کی توسیع دینے پر زور دیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کہا کہ ہم رضا کارانہ طور پر افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے پروگرام کے تحت افغانستان جانے والے ہر پناہ گزین کو 200 ڈالر فراہم کر رہے ہیں جبکہ تقریباً 60 ہزار رجسٹرڈ افغان پناہ گزین اس پروگرام کے تحت اپنے گھروں کو واپس جاچکے ہیں لیکن اس پروگرام کو سردیوں کے باعث اکتوبر 2017 میں معطل کردیا گیا تھا، جو مارچ میں دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے۔

دریں اثناء وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات فی الحال معمول پر نہیں ہیں البتہ دونوں اطراف سے بات چیت جاری ہے پاکستان نے امریکی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کوپاکستان نے ایک طویل عرصہ تک پناہ دی ہے ۔

البتہ اب ممکن نہیں ہے لہذا ان کی جلد واپسی کابندوبست کیاجائے، سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو پاک امریکہ تعلقات کی تازہ ترین صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے انہو ں نے بتایا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات فی الحال معمول پر نہیں ہیں ۔

افغان مہاجرین کوپاکستان نے ایک طویل عرصہ تک پناہ دی ہے البتہ اب ممکن نہیں ہے لہذا ان کی جلد واپسی کابندوبست کیاجائے اس کے علاوہ پاک افغان سرحد پر ایسے اقدامات کئے جائیں سرحدی انتظام کیلئے باڑ لگانے کے کام کی دونوں اطراف پر جلد مکمل کیاجائے کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر 60 سے 70 ہزارافراد بارڈر کراس کرتے ہیں ۔

ان حالات میں دہشتگردوں کو روکنا ممکن نہیں اس کے علاوہ افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی سے افغانستان سے دہشتگرد بھی ان کے ہاں قیام کرتے ہیں او ر ملک دہشتگردی کی کارروائیاں کرتے ہیں بارڈر کے نظام کو بہتر بنانے تک انہیں روکنا مشکل کام ہے ۔

خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہا ہے اس صورتحال میں امریکہ اور افغانستان کی طرف سے الزام تراشی درست نہیں انہوں نے کہا کہ افغاسنتان میں سالوں سے جاری جنگ کے باوجود امریکہ کوافغانستان میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ۔

افغانستان میں افغان طالبان کو پاکستان کو مطلوب دہشتگردوں کو پناہ دی ہے انہوں نے کہاکہ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لئے کوشاں ہے اس وقت پاکستان مختلف محاذوں پر جنگ کررہا ہے بھارت کے ساتھ بارڈر پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں اور بھارتی سازشیں بھی بین الاقوامی برادری کے سامنے ہیں ۔

سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے بتایا کہ امریکہ نے کیری لوگر بل سمیت تمام امداد بند کردی ہے امریکہ نے نائن الیون کے بعد پاکستان کو 5.32 ارب ڈالر امداد فراہم کی گئی۔

سیکرٹری خارجہ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقاتیں انتہائی اچھی رہیں یکم جنوری کوامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو زبان استعمال کی وہ انتہائی ہتک آمیز تھی جس کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ امریکی صدر کو 336 ارب ڈالرز کا الزم بے بنیاد ہے پاکستان نے ایلس ویلز کوبتا دیا ہے کہ امریکی دھمکیاں پاکستانی قوم کیلئے صریحاً ناقابل قبول ہیں ۔

ایلس ویلز نے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان کی قربانیوں کا ادراک کیا ہے ملاقات کے دوران انہوں نے پاکستا نے افغان مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ دہشتگردوں کی افغاسنتان میں آماجگاہوں ، سرحدی انتظام ، مہاجرین کی واپسی کا معاملہ بھی زیر بحث رہا ایلس ویلز کے ساتھ گفتگو پاکستان کے تحفظات کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے امریکہ کو بتا دیا ہے کہ پاکستان باہمی احترام اور اعتماد کے تحت تعلقات چاہتا ہے ۔

چیئرپرسن سینیٹر نزہت صادق کی سربراہی میں سینٹ کی کمیٹی کے اجلاس کے دوران سعودی عرب میں لاپتہ افراد کے متعلق سیکرٹری خارجہ نے معاملہ جلد حل کرنے کی یقین دہانی کروائی انہوں نے کہا کہ یکم فروری کو وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سعودی عرب کا دورہ کرینگے اور سعودی عرب سے لاپتہ افراد کا معاملہ بھی زیر بحث ہوگا ۔

اس کے علاوہ دفتر خارجہ کی جانب سے سعودی عرب کو باقاعدہ خط لکھا گیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان کے بارے میں مکمل معلومات جلد فراہم کی جائینگی سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ مشرق وسطی سے عرب شہزادوں کے بلوچستان اور سندھ میں غیر قانونی شکار کے معاملے میں سیکرٹری خارجہ نے بتایا کہ وزارت خارجہ صرف پیغام رسانی کاکام کرتی ہے جو تلور کا شکار کیلئے صوبائی حکومتیں ہی علاقہ متعین کرتی ہیں ۔

سیکرٹری خارجہ نے بتایا کہ وزارت ماحولیاتی تغیرات نے اس سلسلے میں رہنما اصول وضع کئے گئے ہیں سینیٹر کریم خواجہ نے کہا کہ شیخواور عربوں کے شکار کے باعث پرندے پاکستان میں نہیں آئینگے ۔

انہوں نے کہا کہ عرب شہزادے پاکستان میں شکار کے دوران مختلف برائیوں میں ملوث ہیں جن میں حادثات ، قبل اور لڑکیوں کی خریداری جسے گھناؤنے جرائم بھی شامل ہیں شکام کی وجہ سے ہجرتی پرندوں کی تعداد کم ہوگئی ہے پرندوں کے شکار سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے کو آئندہ اجلاس تک موخر کردیا گیا ۔

کمیٹی میں غیر ملکی جامعات میں خالی پاکستانی نشستوں کو جلد پر کرنے پر اقدامات کئے گئے ہیں جرمنی ، امریکہ برطانیہ ، ترکی ہانگ کانگ ، قازقستان ، مصر ، اردن نیپال سمیت دیگر ممالک میں چودہ نشستیں خالی ہیں جن کومکمل کرنے کیلئے اشتہار دیا گیا ہے اور جلد انہیں پر کردیا جائے گا