|

وقتِ اشاعت :   May 2 – 2016

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل کے بارے میں حکومت کی طرف سے لکھے گئے خط کا جائزہ لے رہے ہیں۔

 سپریم کورٹ میں حکومتی خط پر غور و خوص کیا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اس سلسلے میں سینیئر ججوں سے مشاورت بھی کی ہے۔ اس اہم معاملے پر تحقیقات کس سمت میں آگے بڑھتی ہیں اس کا تعین بڑی حد تک چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے فیصلہ یا رائے پر ہی ہو گا۔ خیال رہے کہ اپوزیشن کی طرف سے مطالبے کے بعد حکومت چیف جسٹس کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے پر تیار تو ہو گئی تھی لیکن اس معاملے پر تحقیقات کے لیے حکومت نے جو ضبط کار تجویز کیے تھے ان کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ حکومتِ پاکستان نے یہ خط گزشتہ ہفتے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو اس وقت ارسال کیا تھا جب وہ ترکی کے دورے پر روانہ ہونے والے تھے اور عام خیال یہ ہی تھا کہ چیف جسٹس ترکی سے واپسی پر حکومتی خط کا جائزہ لیں گے۔ گذشتہ ماہ پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے ملنے والی خفیہ دستاویزات میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بچوں کی کاروباری کپمنیوں اور جائیداد کا انکشاف ہونے کے بعد سے حکومتِ پاکستان پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ سارے معاملے کی عدالتی تحقیقات کروائی جائیں۔ پامانا لیکس کے منظرِ عام پر آنے کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں اپنے خاندان پر لگے الزامات کی تحقیقات سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے کروانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتوں خصوصاً پاکستان تحریکِ انصاف نے مطالبہ کیا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا مطالبہ تھا کہ وزیرِ اعظم کے خاندان کے بیرونِ ملک میں موجود کاروبار کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے۔ حکومت نے حزبِ اختلاف کے اس مطالبے کو اس وقت مسترد کر دیا تھا اور اس کا اصرار تھا کہ تحقیقات ریٹائرڈ جج سے ہی کروائی جائیں گی۔ وزیرِاعظم کے خاندان کی جانب سے لندن میں شریف فیملی کی جائیداد کے بارے میں متضاد بیانات سامنے آنے کے بعد سے حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے جس کے بعد وزیرِ اعظم نے قوم سے دوبارہ کیے جانے والے اپنے خطاب میں اس بات کا اعلان کیا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھا جائے گا۔ پاناما لیکس کی تحقیقات کے سلسلے میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے موقف میں اب کافی حد تک یکسوئی ہے اور اس سلسلے میں حتمی ضابطِ کار کی تشکیل کے لیے پیر کو حزب مخالف کی جماعتوں کا اجلاس پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف، چوہدری اعتزاز احسن کے گھر پر ہو رہا ہے۔ دو سال قبل تحریکِ انصاف کے اسلام آباد میں سنہ 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنے کے بعد جو عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا اس کے لیے حکومت نے خصوصی طور پر ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا۔ اس کمیشن کا ضابط کار بھی تحریک انصاف کے ساتھ مشاورت کے بعد بنایا گیا تھا۔ اس مرتبہ بھی حزب مخالف کی جماعتیں اس ہی طریقے سے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔