|

وقتِ اشاعت :   November 6 – 2017

کوئٹہ: پشتون قومی تحریک کے عظیم سیاسی رہنماء سائیں کمال خان شیرانی کی ساتویں برسی کی مناسبت سے پشتونخواملی عوامی پارٹی ژوب اور شیرانی کے زیر اہتمام ظریف شہید پارک میں پارٹی کے ضلعی سیکرٹری غلام الدین شیرانی کی زیر صدارت جلسہ عام منعقد ہوا۔جلسے سے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری وصوبائی صدر سنیٹر عثمان خان کاکڑ ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات رضا محمد رضا ، صوبائی سیکرٹری وصوبائی وزیرتعلیم عبدالرحیم زیارتوال ،صوبائی ڈپٹی سیکرٹری صوبائی وزیر منصوبہ بندی وترقیات ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، صوبائی ڈپٹی سیکرٹری رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ خان زیرے ، ضلعی رہنماؤں سلطان خان شیرانی ،برملا خان، ڈاکٹر محمد شاہ مندوخیل ، ڈاکٹر یونس شیرانی ، محمود شیرانی ، تاج محمد اور مولوی عبداللہ مندوخیل نے خطاب کیا ۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے مرحوم رہنماء سائیں کمال خان شیرانی کو ان کے تاریخی کردار اور ناقابل بیان قربانیوں اور عظیم قومی خدمات پر زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سائیں کمال خان شیرانی بیسویں صدی کے صف اول کے قومی سیاسی رہنما میں سے ایک تھے جنہوں نے خان شہید کی دست راست کی حیثیت سے پشتون قومی سیاسی تحریک کو علمی ، سائنسی اور نظریاتی بنیادوں پر منظم کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا ۔

وہ جدید عصر کے بلند پایہ کے عالم ، ادیب اور دانشور تھے جنہوں نے عالمی سطح کے بلند پایہ عالموں کے تصانیف کو پشتو زبان میں تراجم کےئے اور طویل مدت تک پشتون رسالہ کی اشاعت کو جاری رکھا ان کی علمی اور ادبی تصانیف پشتون افغان ملت کیلئے بہت بڑا علمی ورثہ ہے ۔

مقررین نے کہا کہ سائیں کمال خان شیرانی نے پشتون بلوچ صوبے کے قومی سیاسی تحریکوں کے قومی رہنماؤں کی علمی اور نظریاتی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ۔

انہوں نے قومی جمہوری نظریاتی بنیادوں پر منظم اور محکوم قوموں اور مظلوم عوام کی حقیقی نمائندہ پارٹیوں کو پنجاب کی استعماری بالادستی اور ظالم استحصالی قوتوں سے نجات کا واحد وسیلہ قرار دیا ۔

انہوں نے پشتون غیور ملت کو قومی محکومی سے نجات دلانے پشتون ملی وحدت کی بحالی اور متحدہ قومی صوبہ پشتونخوا اور پشتون عوام کی جمہوری قومی اقتدار کے قیام کیلئے مرتے دم تک ناقابل بیان قربانیاں کیں۔ 

ان کی برسی کی تاریخی جلسہ عام میں عوام کی اتنی کثیر تعداد میں شرکت نے ثابت کیا کہ ہمارے عوام اور نوجوان نسل کو سائیں کمال خان شیرانی کے بلند وبالا مقام اور ان کے تاریخی رول اور قربانی کا ادراک حاصل ہوا ہے ۔

پشتونخوامیپ اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ سائیں کمال خان شیرانی کی کردار اور گفتار کو مشعل راہ بنا کر ان کی قومی ارمانوں کی تکمیل کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریگی۔

مقررین نے کہا کہ آج اس ملک میں ستر سال گزرنے کے بعد بھی پشتون غیور ملت اپنی تاریخی سرزمین کی وحدت ، ملی تشخص ، قومی برابری اور جمہوری اقتدار کے حق سے محروم ہے اور پشتون عوام کے ساتھ اپنے وطن اور ملک کے دیگر علاقوں میں جنگی قیدیوں سے بدتر سلوک روا رکھا جارہا ہے ۔

پشتونوں کو ملکی آئین میں دےئے گئے تمام انسانی حقوق حتیٰ کہ ملکی شہریت اور شناختی کارڈ کے حق سے بھی محروم رکھا جارہا ہے ۔

پشتونوں پر تعلیم ، صحت ، تجارت اور روزگار کے تمام دروازے بند کردےئے گئے ہیں اور گزشتہ چار دہائیوں سے پشتونخواطن کو انسانی تاریخ کی بدترین دہشتگردی ، تباہ حالی سے دوچار کیا گیا ہے ۔

جب تک پشتون عوام متحد ومنظم ہوکر محکومی اور نابرابری کی اس صورتحال کا خاتمہ نہیں کرتے اس وقت تک ان کی قومی بقا اور خوشحال مستقبل ممکن نہیں ہوسکتی ۔

مقررین نے کہا کہ اگر بدنام زمانہ ون یونٹ کے وقت گول میز کانفرنس اور 1973کے آئین کی تشکیل کے وقت خان شہید اور سائیں کمال خان شیرانی جیسے قومی رہنماؤں کو نمائندگی کا حق حاصل ہوتا تو سرزمین پشتونخوا کی استعماری تقسیم اور قومی نابرابری کے مسائل کا سامنا اس غیور ملت کو کبھی نہیں ہوتا ۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ استعماری اور آمریت کے قوتوں نے پشتونوں پر ایسے نمائندوں کو مسلط کیا ہے جو اپنی قوم اور عوام کے بجائے دشمن کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جنہوں نے اسلام کی مقدس دین اور عوامی نمائندگی کو ہمارے قومی وطنی مفادات کے خلاف استعمال کیا ہے ۔

مقررین نے کہا کہ پشتون اس ملک کی سب سے بڑی قوم ہے لیکن جعلی اور دھاندلی پر مبنی مردم شماری کے ذریعے اسے ایک چھوٹی قوم ظاہر کیا گیا ہے پشتون بلوچ صوبہ میں پشتونوں کی حقیقی آبادی بلوچوں سے زیادہ ہے لیکن ہر مردم شماری میں پشتونوں پر بلوچوں کی اکثریت جبری طور پر مسلط کی جاتی ہے۔

1970کی پہلے کے مردم شماری میں فاٹا کی آبادی ہمارے صوبے سے زیادہ تھی جبکہ آج فاٹا کی مردم شماری صرف پچاس لاکھ ہے اور یہی حالت خیبر پشتونخوا کی بھی ہے پشتونوں کے ساتھ جاری انصافیوں کا مقصد ہمارے وسائل اور روزگار کے ذرائع پر پنجاب کی بالادستی کو مزید دوام دینا ہے ۔

پنجاب کے استعمارگروں اور آمریت کے قوتوں نے پشتونخوا وطن کو دہشتگردی کے جنگ میں تباہ کرنے کے بعد کروڑوں پشتونوں کو اپنے تاریخی وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے جبکہ ملک کے تمام علاقوں میں پشتونوں کو محنت مزدوری کرنے کی اجازت نہیں۔

لیکن افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ پشتونوں کے خلاف جاری ناروا سلوک پر عدلیہ سمیت ریاست کے تمام ادارے خاموش ہے ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجر آج ہمارے حکمران بنے بیٹھے ہیں لیکن پشتونوں کو اس ملک کو اور وطن میں شناختی کارڈ کا حق حاصل نہیں۔

مقررین نے کہا کہ فاٹا کو اس ملک میں تاریخی آزادانہ آئینی حیثیت حاصل ہے فاٹا کے کروڑوں عوام کا دیرینہ مطالبہ یہ رہا ہے کہ اس کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے فاٹا میں عوام کی منتخب اقتدار کے قیام کیلئے جمہوری اصلاحات کےئے جائیں لیکن فاٹا پر عوام کی مرضی کیخلاف استعماری فیصلے مسلط کےئے جاتے ہیں پشتونخوامیپ فاٹا کے عوام کی جبری انضمام کو کسی بھی صورت قبول نہیں کریگی ۔

مقررین نے کہا کہ ہم مارشلاء اور ٹیکنوکریٹ حکومت کی حمایت کرنے والوں پر واضح کرتے ہیں کہ اگر ایک بار پھر ملکی آئین کو توڑا گیاتو پھر اس ملک میں کوئی اور آئین نہیں بنے گا ہم اس ملک کے پشتون ، بلوچ ، سندھی ، سرائیکی اقوام کی جمہوری قوتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ باہم متحد ہوکر ملکی آئین میں ایک ایسا آرٹیکل شامل کریں کہ اگر پنجاب کی استعماری اور مارشلائی قوتوں نے ایک بار پھر ملکی آئین کو پامال کیا گیا تو اس ملک کے قوموں کو خودمختیاری کا حق حاصل ہوگا۔

مقررین نے کہا کہ استعماری اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے صوبے میں منتخب حکومت کے باوجود متوازی حکومت قائم کی ہے جو عوام کی اقتدار کے حق سے انکار کے مترادف ہے ۔

سیکورٹی فورسز چمن سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے ژوب تک شاہراہوں پر چیک پوسٹوں کا جھال بچا کر ہمارے عوام کی تذلیل کررہے ہیں جس سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ سیکورٹی ادارے ہمارے عوام کو اس ملک کا شہری تسلیم نہیں کرتے اگر بے عزتی کی اس ناروال سلوک کا خاتمہ نہ کیا گیا تو ہمارے عوام اپنے عزت کی تحفظ کیلئے راست اقدامات پر مجبور ہونگے ۔

ایسے لگتا ہے کہ ہمارے استعماری اسٹیبلشمنٹ نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اگر ان کا مقصد پشتونوں کو اپنے قومی سیاسی اور جمہوری حقوق واختیارات سے دستبردار کرنا ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے ۔

پشتونخوا وطن کا قومی سیاسی اور جمہوری اقتدار ہمارے عوام کا آئینی حق ہے جس سے ہم ضرور حاصل کرینگے ۔

مقررین نے کہا کہ پاکستان کے استعماری حکمرانوں نے افغانستان میں جارحیت اور مداخلت کی انسانیت سوز جنگ کو آج بھی جاری رکھا ہے جب تک افغانستان پر مسلط کردہ دہشتگردی کی جنگ کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک پاکستان کو دہشتگردی کے تباہ کن نتائج سے محفوظ نہیں کیا جاسکتا ۔