|

وقتِ اشاعت :   March 14 – 2015

کراچی: متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم ) کے مرکزی الیکشن سیل کے گرفتار رکن عمیر صدیقی نے 120 افراد کے قتل کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آگ سیکٹر انچارج کے کہنے پر لگائی گئی۔ ہفتے کو سندھ رینجرز نے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے عمیر صدیقی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا، جہاں عدالت نے انھیں 90 روز کے لیے رینجرز کی تحویل میں دے دیا۔ عمیر حسن صدیقی کو ایک ماہ قبل ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب عزیز آباد نمبر 8 سے حراست میں لیا گیا تھا، جبکہ ایم کیو ایم نے اپنے ایک اعلامیےمیں کارکن کی گرفتاری کی شدید مذمت کی تھی۔ جمعے کو رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ ملزم عمیر صدیقی ابتدائی تفتیش کے دوران 120 افراد کے قتل کا اعتراف کرچکا ہے۔ جبکہ عمیر صدیقی نے انکشاف کیا ہے کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آگ بھی بلدیہ کے سیکٹر انچارج رحمان بھولا نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لگائی۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ رینجرز کی جانب سے عدالت کو پیش کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 11 ستمبر 2012 کو بلدیہ فیکٹری میں آگ لگانے کے واقعے میں متحدہ قومی موومنٹ ملوث ہے، جس کے دوران 250 سے زائد افراد جھلس کر ہلاک ہوگئے تھے۔ ترجمان رینجرز کے مطابق مذکورہ ملزم نے کراچی تنظیمی کمیٹی (کے ٹی سی) کے ممبر حماد صدیقی کے حکم پر ایک ٹارگٹ کلنگ ٹیم تشکیل دی، جس میں ایم کیو ایم کے مختلف یونٹوں سے تعلق رکھنے والے 23 ٹارگٹ کلرز کو شامل کیا گیا۔ رینجرز کے مطابق اس ٹارگٹ کلنگ ٹیم نے تقریباً 120 متحدہ مخالفین کو قتل کیا، جن کے احکامات اسے کے ٹی سی کے انچارج حماد صدیقی سے ملتے تھے۔ عمیر صدیقی نے انکشاف کیا کہ اس کی ٹارگٹ کلنگ ٹیم نے رینجرز کے لانس نائیک شوکت کے ساتھ ساتھ سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کے گارڈ شاہد حسین اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عامر خان کے بھتیجے صبیح اللہ کو بھی قتل کیا۔ رینجرز کے مطابق ٹارگٹ کلنگ ٹیم نہ صرف متحدہ قومی موومنٹ کے مخالفین بلکہ اپنے کارکنوں کو قتل کرنے کا کام بھی سر انجام دیتی تھی، جبکہ متحدہ کارکن طاہرعرف ندیم ایس پی کا قتل بھی اسی ٹیم نے کیا۔ ملزم نے تفتیش کے دوران اعتراف کیا کہ 2008 میں متحدہ کے ڈپٹی کنوینیئر انیس قائم خانی نے خوشید میموریل ہال میں بلائی گئی ایک میٹنگ میں لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کو تیز کرنے کا حکم دیا۔ اس میٹنگ میں کے ٹی سی انچارج حماد صدیقی ، تمام سیکٹر انچارجز اور جوائنٹ سیکٹر انچارجز نے بھی شرکت کی۔ رینجرز کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ وہ کوئٹہ کے ایک ڈیلر کے ذریعے متحدہ میں موجود عسکری ونگ کے لیے اسلحے کی خریداری میں بھی ملوث رہا ہے، جس کے تحت 40 کلاشنکوف، 8 ایل ایم جی، ایک راکٹ لانچر، 6 جی تھری، 5 چائنا رائفل اور 3 ایم جی کی کھیپ خریدی گئی۔ عمیر صدیقی نے بتایا کہ فروری 2015 میں تمام سیکٹر انچارجز کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ اپنے اپنے سیکٹرز کا اضافی اسلحہ چھاپوں کے دوران برآمدگی سے بچنے کے لیے نائن زیرو پر جمع کرائیں۔ یہ اسلحہ ایمبولینسز کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔ ملزم نے نائن زیرو کے اطراف ٹارگٹ کلرز کے ٹھکانوں کی موجودگی کا بھی انکشاف کیا، جن میں تقریباً 250 سے 300 ٹارگٹ کلرز روپوش ہیں۔ عمیر صدیقی نے گذشتہ عام انتخابات میں گلشن معمار سیکٹر میں جعلی ووٹ کاسٹ کروانے کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے حکم پر 60 سے 70 کارکنوں نے امیدوار فیصل سبز واری کے حق میں پولنگ اسٹیشنوں پر جعلی ووٹ کاسٹ کروائے۔ اس سلسلے میں الیکشن سے ایک دن قبل پریزائیڈنگ افسران کو سیکٹر آفس بلا کر ان کو جعلی ووٹ کاسٹ کرنے پر قائل کیا گیا، جبکہ ہر پولنگ اسٹیشن سے 15 سے 20 جعلی ووٹوں سے بھرے بکس بھرکر پریزائیڈنگ افسران کے حوالے کیے جاتے تھے۔

الطاف حسین کا عمیر صدیقی سے لاتعلقی کا اعلان

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین نے عزیز آباد سے گرفتار ملزم عمیر صدیقی سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے۔ متحدہ کے قائد کا کہنا ہے کہ وہ عمیر صدیقی کو نہیں جانتے، کھلی عدالت میں مقدمہ چلے تو پتہ چلے کہ عمیر صدیقی کا بیان کیا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ رینجرز افسران ٹارچر کر کے جھوٹے بیانات دلوارہے ہیں۔ الطاف حسین کا کہنا تھا کہ آج بھی 1992 والا طرز عمل اختیار کیا جارہا ہے اور ایم کیو ایم کو تنہائی کا شکار کیا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم قائد کا کہنا تھا کہ ان کو وزیراعظم نواز شریف سے کوئی امید نہیں، کیونکہ وہ فوج کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرسکتے۔

رینجرز کی مکمل پریس ریلیزPRESS RELEASE