|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2015

اسلام آباد: سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پیڑولیم نے وزارت داخلہ کی جانب سے تیل و گیس تلاش کرنیوالی مقامی و بیرونی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی پر شدید برہمی کا اظہار کر تے ہوئے اس حوالے سے 15دن کے اندر واضح پالیسی بنانے کی ہدایت کر دی۔چےئر مین کمیٹی نے ایران سے سمگل ہونیوالے کروڑوں بیرل تیل کی ملکی کمپنیز کی جانب سے ملک بھر میں ترسیل و فروخت، عسکر ون نامی کمپنی کی جانب سے پنجاب میں پیڑول پمپ لگانے کی اجازت نامے کے باوجود سندھ ،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں غیر قانونی پیڑول پمپ لگانے پر شدید بر ہمی کا اظہار کر تے ہوئے آئندہ کمیٹی کے اجلاس میں اوگرا سے رپورٹ طلب کر تے ہوئے کہا کہ 10سال سے عسکر ون نامی کمپنی غیر قانونی پیڑول پمپوں کے ذریعے قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہی ہے ۔جمعرات کو کمیٹی کا اجلاس قائمقام چےئرمین سینیٹر سردار محمد یوسف کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا ۔اجلاس میں سینیٹر ز سردار اعظم خان موسیٰ خیل ، تاج آفریدی ، یوسف بادینی ، نثار محمد، سردار فتح محمد محمد حسنی، حمزہ ، باز محمد خان ، روبینہ عرفان کے علاوہ سکریٹری وزارت ارشد مرزا ، اوگرا کے چیئر مین محمد سعید ، ایڈیشنل سیکریٹری وزارت داخلہ طارق محمد خان کے علاوہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ کمیٹی ایجنڈے میں شامل غیر ملکی کمپنیوں کے ماہرین کی سیکیورٹی کے حوالے سے ایڈیشنل سیکریٹری وزارت داخلہ نے آگاہ کیا کہ تمام فورسز ملک بھر میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مصروف ہیں اسلئے ہمارے پاس فورسز کی گنجائش نہیں ہے کہ ہم غیر ملکیوں کمپنیوں کو سیکیورٹی فراہم کر سکیں ،جس پر کمیٹی اراکین نے کہا کہ پاک چائنہ اقتصادی راہ داری منصوبے پر اپ سیکیورٹی فراہم کر سکتے ہیں تو دیگر غیر ملکی کمپنیوں کو کیوں نہیں ؟ جس پر ایڈیشنل سیکریٹری وزارت داخلہ طارق محمد خان نے کہا کہ پاک چائنہ اقتصادی راہ داری منصوبے کیلئے الگ سیکیورٹی ونگ بنایا گیا ہے جس میں 6ونگ سول آرمڈ فورسز اور 8پاک آرمی کی بر گیڈز شامل ہیں ۔اس موقع پر قائمقام چےئرمین سینیٹر سردار محمد یوسف نے وزارت داخلہ اور وزارت پٹرولیم کو ہدایت کی کہ وہ 15دن کے اندر تمام غیر ملکی کمپنیوں کی سیکیورٹی کیلئے بلا تفریق پالیسی مر تب کر ے اور آئندہ کمیٹی اجلاس میں اس کو پیش کیا جائے۔کمیٹی اجلاس میں عسکر ون کے خلاف چیئر مین سینیٹ کو پبلک پٹیشن بھجوانے والے شاہباز خان موسیٰ خیل نے تمام حقائق سے کمیٹی کو آگاہ کیا اور انکشاف کیا کہ عسکر 1 کو صرف پنجاب میں پیڑول پمپ لگانے کی اجازت تھی ، سندھ ، خیبر پختونخواہ ، بلوچستان ، جی بی اور آزاد کشمیر میں بھی صرف پنجاب کیلئے 290کے علاوہ پیڑول لگائے جنکی مجموعی تعداد 394ہے اور تبایا کہ اسکی پیڑول پمپ کی درخواست لگانے کی درخواست کو منظور نہیں کیا گیااور دوسرے افراد کو غیر قانونی اجازت دی اور انکشاف کیا کہ20 دن کا تیل کا قانوی زخیرہ نہ ہونے کے باوجود پمپس لگائے جاتے رہے ۔اس حوالے سے چیئر مین اوگرا سعید نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ عسکر ون نامی کمپنی کو 2010میں 5لاکھ، 2013میں 20 لاکھ اور 2014میں اکروڑ 20لاکھ کا جرمانہ کیا گیا اور پابندی لگائی گئی تو لاہور ہائی کورٹ نے حکم امتناہی جاری کر دیا جس پر صدر نشین کمیٹی سینیٹر محمد یوسف نے کہا کہ دس سال میں 1کروڑ پینتیس لاکھ جرمانہ دینے والا اب بھی مزے سے کاروبار کر رہاہے اور کہا کہ اوگرا کا کام ریگولیٹر کا ہے اگر اوگرا زمہ داری پوری نہیں کرتا تو پھر اس کا کام کیا رہ جاتا ہے ۔ اوگرا اس سے آگاہ ہی نہیں کہ سینکڑوں پیڑول پمپوں کو تیل کہا ں سے مہیاء کیا جارہا ہے اور وہ کس سے پیڑول حاصل کر رہے ہیں اس سلسلے میں ملی بھگت کے معاملات چل رہے ہیں آئندہ اجلاس میں معاملہ ایجنڈے پر لایا جائیگا۔ اراکین کمیٹی کا متفقہ موقف تھا کہ اوگرا پنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہے ۔ وزارت پیٹرولیم حکام کی جانب سے کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ صوبوں کو تمام گیسوں پر 12.5فیصد رائلٹی دی جاتی ہے مگر خیبر پختونخوا حکومت نے ایل پی جی پرسیل قیمت پر رائلٹی مانگی ہے اس حوالے سے وزارت قانون سے رائے مانگی ہے جس کی وجہ سے ایل پی جی پر ریالٹی کا فیصلہ نہیں ہو سکا ۔ وزارت قانون کا جواب آتے ہی ایل پی جی پر ریالٹی کا معاملہ جلد حل ہو جائیگا۔