|

وقتِ اشاعت :   September 7 – 2016

واپڈا کے نئے چئیرمین کوئٹہ پہلی بار تشریف لائے اور انہوں نے کمانڈر سدرن کمانڈ کے ہمراہ وزیراعلیٰ سے ملاقات کی جس میں صوبائی چیف سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ بھی موجود تھے ۔ اس ملاقات نے ایک اجلاس کی شکل اختیار کر لی جس میں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے جلد سے جلد کچھی کینال کے منصوبہ کو مکمل کرنے کی ہدایات جاری کیں اور متعلقہ حکام کو یہ بھی ہدایت کی کہ کیچھی کینال کی جلد سے جلد تعمیر میں وسائل کی فراوانی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چائیے کیونکہ بلوچستان کی معیشت کا ایک اہم ترین منصوبہ دہائیوں سے تاخیر کا شکار ہے ۔ اتنی طویل تاخیر آر سی ڈی ہائی وے کے بعد کچھی کینال کے پروجیکٹ میں ہوئی ہے وفاقی حکومت کی پالیسی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بلوچستان کے اہم ترین منصوبوں کو اہمیت نہیں دی جاتی، ان کو زیادہ سے زیادہ سرد خانے میں رکھنے کی روایت ہے ۔ آر سی ڈی ہائی وے گزشتہ 55سالوں سے زیر تعمیر ہے آج تک مکمل ہو کر نہیں رہا جبکہ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان موٹر وے صرف 8ماہ کی قلیل ترین مدت میں مکمل ہوا ۔اسی طرح بولان میڈیکل کالج کا منصوبہ 35سالوں میں مکمل ہوا ۔ یہ منصوبہ صرف ساڑھے سات کروڑ روپے کی لاگت سے سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت میں شروع ہوا تھا اور یہ جنرل پرویزمشرف کے دور میں مکمل ہوا ۔ اسی طرح گوادر کی بندر گاہ کے صرف تین برتھ تعمیر ہوئے ہیں او رپوری قوم ناچ رہی ہے کہ یہ تین برتھ پاکستان کے عوام کی قسمت بدل دیں گے۔ بندر گاہ کی توسیع اور مزید تعمیر کا کوئی منصوبہ ہمارے علم میں نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان کے بجٹ میں اسکے لئے رقم رکھی گئی ہے ۔لہذا سی پیک کا پورا منصوبہ ہوا میں معلق نظر آتا ہے ۔ تین برتھوں سے ترقی کے رفتار کا اندازہ خود لگایا جا سکتے ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے بڑے منصوبے ہمیشہ کم سے کم تین دہائیوں میں مکمل ہوئے ہیں کیونکہ وفاق کے سامنے بلوچستان اور اس کے عوام کی اہمیت نہیں بلکہ پاکستان کے نصف فیصد خطے کی کوئی ا ہمیت نہیں جس کے سمندری حدود میں دنیا کے تیسری جنگ عظیم لڑے جانے کے خطرات موجود ہیں یہ جنگ ساحل مکران پر ہی لڑی جا سکتی ہے ۔ دوسری جانب عام تاثر یہ ہے کہ کیچھی کینال کی تعمیر میں تاخیر جان بوجھ کر کی جارہی ہے کیونکہ اس کینال سے بلوچستان کو دریائے سندھ سے دس ہزار کیوسک پانی ملنے کی توقع ہے ۔ 1991ء کے صوبوں کے درمیان نہری پانی کے تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا ۔ نہری نظام کا ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ 25سالوں سے یہ پانی سندھ اور پنجاب استعمال کررہے ہیں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کو سندھ کے نہری نظام سے اس کے حق سے محروم رکھنا ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وسائل پر وفاق کا قبضہ ہے بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے اور اس کی وفاق پاکستان میں کوئی نمائندگی نہیں ہے بلوچستان کے عوام حکومت بنا سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں اس لئے بلوچستان کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور وسائل نہیں دئیے جارہے ۔ پنجاب میں جاری میگا منصوبوں پر سینکڑوں ارب روپے سالوں خرچ ہورہے ہیں مگر بلوچستان کے منصوبوں کے لئے فنڈز نہیں دئیے جارہے ہیں ۔ ایک سابق وزیراعلیٰ نے وزیر خزانہ سے زائد ترقیاتی فنڈ کا مطالبہ کیا تو انہوں نے وزیراعلیٰ کو مشترکہ مفادات کونسل کی طرف جانے کا اشارہ دیا او ربھونڈے انداز میں ہمارے وزیراعلیٰ کی بے عزتی کی۔ کچھی کینال فنڈ نہ ملنے کی وجہ سے پچیس سالوں سے زیر تعمیر ہے چونکہ یہ وفاقی اسکیم ہے اوراس کا تعلق بلوچستان سے ہے جس میں وفاق پاکستان کے کسی فرد کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے نہ ہی کوئی اس کی نگرانی کررہا ہے ا ور یہ منصوبہ ٹھیکے دار اور افسر شاہی کے لئے لوٹ مار کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گیا ہے ۔ کچھی کینال کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کو ہے جس سے بگٹی قبائلی علاقے میں ایک لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوگی ۔ اس دوران یہ انکشاف ہوا کہ پوری تعمیرات ناقص ہیں ، معیاری نہیں ہیں ویسے بھی واپڈ اکرپشن کے معاملات میں پاکستان بھر میں سرفہرست ہے اور یہ بلوچستان میں کچھ زیادہ کرپشن کرتی ہے ۔ اسلئے ناقص تعمیرات کے ساتھ شاید پہلا مرحلہ کسی وقت بھی بلوچستان حکومت کے حوالے کیاجائے گا۔ ہمارا صوبائی حکومت کو یہ مشورہ ہوگا کہ ناقص تعمیرات کے ساتھ کچھی کینال کا کنٹرول نہ سنبھالا جائے تعمیرات معیار ہونی چائیے کیچھی کینال بلوچستان میں سات لاکھ ایکڑ زمین آباد کرے گا۔ مشرقی بلوچستان کے ایک حصے میں خوشحالی آسکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ تعمیرات معیاری ہوں تو بلوچستان خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہوجائے گا اور وہ سندھ اور پنجاب کا محتاج نہیں رہے ہوگا۔