|

وقتِ اشاعت :   January 16 – 2017

اسلام آباد: پاناما کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے وزیر اعظم کے وکیل سے سخت سوالات کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ کہ ایک جانب کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں جھوٹ نہیں بولا اور دوسری جانب  دوسری طرف استثنی بھی مانگ رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزاراحمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے دوران وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے نااہلی سے متعلق دلائل دیئے، ان کا کہنا تھا کہ رینٹل پاور کیس میں عدالت نے راجا پرویزاشرف کے خلاف آبزرویشن دی لیکن نا اہلی کا فیصلہ نہیں دیا، تقریر،ٹیکس اور مریم کا زیر کفالت ہونا 3 مختلف معاملات ہیں،جہاں ریکارڈ متنازع ہو وہاں سپریم کورٹ براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی، آئین کی دفعہ 62 (1) ف اور 63 (1) کے اطلاق کا طریقہ کار مختلف ہے۔ آرٹیکل 66 کے تحت اسمبلی کی کارروائی کو عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔ جسٹس شیخ عظمت شیخ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ یہ کہناچاہ رہےہیں کی دفعہ 184 (3) کے تحت عدالت تصدیق شدہ حقائق ہی سن سکتی ہے۔ سپریم کورٹ بھی ایک عدالت ہےاور کئی کیسز میں ڈکلیریشن دے چکی ہے، جن مقدمات کا حوالہ دیا جارہا ہے ان سے ثابت ہوتا ہےکہ کیس سنناعدالت کے اختیارات میں ہے۔ ایشو یہ نہیں ہے کہ درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ 184 (3) کے تحت کیا وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ استثنی اور استحقاق میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئین کی دفعہ 62 (1) کے حوالے سے کوئی طے شدہ طریقہ واضح نہیں، ممکن ہے کہ اس حوالے آئندہ بھی متعدد فیصلے آئیں۔ وزیراعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی کا بیان نہیں، عدالت میں ان کی تقریر پر ہی انحصار کیا جارہا ہے اور اس سے معاملے کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ انہوں نے تقریر اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے کی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے مخدوم علی خان کے دلائل پر ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں جھوٹ نہیں بولا دوسری طرف استثنی بھی مانگ رہے ہیں، پہلے آپ نے کہا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی،اب کہہ رہے ہیں کہ اگر غلط بیانی کی بھی ہے تو اس کو استثنی حاصل ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 66 آزادی اظہار رائے کو تسلیم کرتا ہے،آزادی اظہار رائے الگ ہے اور تقریر کو عدالتی کارروائی میں شامل کرنا الگ ہے،اسمبلی میں تقریر کو استثنی حاصل ہے تو کیا اسے کیس کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کی تقاریر کا جائزہ آئین کےمطابق ہی لیا جا سکتا ہے، آئین کےمطابق جائزہ لینےکےمعاملے پرعدالتی فیصلےموجود ہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62بھی آئین کا ہی حصہ ہے، کیااسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پر آرٹیکل 62کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔