|

وقتِ اشاعت :   February 14 – 2018

صدیق بلوچ ایک صحافی، دانشور اور مستقبل کے بارے میں پیشگوئی کرنے والے اور سیاسی کارکن سب کچھ تھے۔ ان کی ابتدائی تربیت بائیں بازوکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (N.S.F) میں ہوئی۔  ساری زندگی ترقی پسند نظریات کی آبیاری کی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مقتدر اداروں کی ناپسندیدہ صحافیوں کی فہرست میں ان کا نام شامل رہا ۔ ہمیشہ میر غوث بخش بزنجوکے نظریہ جمہوریت کی پاسداری کی اورکبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

صدیق بلوچ کے آباؤاجداد ایرانی بلوچستان سے ہجرت کر کے لیاری میں آباد ہوئے۔ صدیق بلوچ کے بزرگوں نے لیاری جنگجیان ہوٹل قائم کیا جہاں سیاسی کارکنوں کو مفت میں کھانا کھلایا جاتا تھا ۔ صدیق بلوچ کے والد مسلم لیگ کے کارکن تھے۔ صدیق بلوچ 1940 میں لیاری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لیاری سے متصل ہائی اسکول میں حاصل کی۔ سندھ مسلم کالج میں داخلہ لیا ۔ یہ وہ وقت تھا کہ این ایس ایف کراچی شہرکی سب سے بڑی منظم تنظیم تھی۔ این ایس ایف جنرل ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کررہی تھی۔ صدیق بلوچ بنیادی طور پر فٹ بال کے کھلاڑی تھے مگر طلبہ سیاست میں بھی سرگرم تھے۔ صدیق بلوچ ایس ایم کالج کی طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے اور امتیازی نمبروں سے بی اے کی سند حاصل کی، کراچی یونیورسٹی  میں شعبہ معاشیات کے طالب علم ہوگئے۔ صدیق بلوچ ایک طرف این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے طلبہ سیاست میں حصہ لیتے تھے، پرجوش نعرے لگاتے، مارکسزم اور کیپیٹل ازم کے تضادات اور جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت کی عوام دشمن پالیسیوں کا پردہ چاک کرتے تو دوسری طرف کراچی یونیورسٹی کی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑی کی حیثیت سے بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے۔

صدیق بلوچ مارکسٹ دانشور اور سیاسی کارکن لالہ لعل بخش رند کے قریبی دوستوں میں شامل تھے اور اس طرح وہ نیشنل عوامی پارٹی کے رکن بن گئے اور لیاری میں سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ صدیق بلوچ نے معاشیات کے شعبے میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ اس زمانے میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کا معیار خاصا بلند تھا ۔ اس شعبہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے لیے ملک اور بیرون ممالک بڑی مانگ تھی۔ وہ سپیریئر سروس کا امتحان دے سکتے تھے، بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں میں افسر بن سکتے تھے یابیرون ملک جا کر پرکشش ملازمت کرسکتے تھے۔ صدیق بلوچ بنیادی طور پر سیاسی کارکن تھے۔

وہ استحصالی سماج کے خاتمے کی تحریک میں اپنا حصہ بٹانا چاہتے تھے اور عوام کے ذہنوں کو تبدیل کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ اس زمانے میںہارون فیملی نے لیاری میں عبداﷲ ہارون کالج قائم کیا اور معروف شاعر فیض احمد فیض کو پرنسپل مقررکیا گیا۔ صدیق بلوچ نے مختصر عرصہ عبداﷲ ہارون کالج میںتدریس کے فرائض انجام دیے۔ صدیق بڑے کنویس پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کی خواہش رکھتے تھے، یوں انھوں نے ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار روزنامہ ڈان میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ اس زمانے میں ایم اے مجید ، احمد علی خان، نثار عثمانی اور آئی ایچ برنی جیسے جید صحافی وہاں موجود تھے، یوں صدیق بلوچ نے صحافت کی باریکیوں کو بخوبی سمجھا اور پاکستان میں قومی مسئلہ طبقاتی جدوجہد اور دنیا بھر کی مزاحمتی تحریکوں کے بارے میں آگاہی مہم میں ایک اہم حیثیت کے حامل شخص بن کر ابھرے ۔

ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا کے احکامات کے تحت 1958 میں بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا۔ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے بے دخل کیا مگر بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری رہا۔ بلوچ سردار نوروز خان اور ان کے بیٹے اور عزیزوں کو حیدرآباد جیل میں پھانسی دی گئی۔ بلوچستان کی سیاسی قیادت میرغوث بخش بزنجو، اکبر بگٹی، عطاء اﷲ مینگل اور خیربخش مری کو گرفتار کیا۔ اس ماحول میں جنرل ایوب خان کو فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب میں چیلنج کیا۔ لیاری فاطمہ جناح کی تحریک کا بڑا مرکز تھا۔ متحدہ حزب اختلاف نے لیاری سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے میر عبد الباقی بلوچ کو نامزد کیا۔

صدیق بلوچ، لعل بخش رند اور لطیف بلوچ وغیرہ نے میر عبدالباقی بلوچ کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ لیاری کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب ہوا۔ جنرل ایوب خان کی مسلم لیگ نے میر حبیب اﷲ پراچہ کو امیدوار نامزد کیا۔ حزب اختلاف کے امیدوار بھی بزنجو صاحب کے حامی تھے۔ صدیق بلوچ اس انتخاب میں سب سے زیادہ متحرک رہے۔ 1968میں جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کے نتیجے میں جنرل یحییٰ خان اقتدار میں آئے اور مارچ 1970 میں پہلے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ، سندھ اور پنجاب سے پیپلز پارٹی، سرحد اور بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی، مگر جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ہوا،  16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا۔

جب صدر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں میر غوث بخش بزنجو  بلوچستان کے گورنر اور عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو میر غوث بخش بزنجو نے صدیق بلوچ کو اپنا پریس سیکریٹری مقررکیا۔ نیپ کی حکومت صرف 8ماہ برقرار رہی۔ صدر بھٹو نے حکومت کو توڑ دیا، یہ بڑے ہنگامے خیز دن تھے۔ بلوچستان میں ایک غیر یقینی کی صورتحال تھی۔ روز ہنگامے اور مظاہرے ہوتے تھے۔ صدیق بلوچ کو اس مختصر دور میں ملکی صحافیوں کے علاوہ غیر ملکی صحافیوں سے بھی نمٹنا پڑا، پھر حکومت ختم ہوئی۔ پہلے نیپ کی مرکزی قیادت گرفتار ہوئی۔ صدیق بلوچ اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے لیاری آئے اور گرفتار ہوئے اور 4 سال سے زائد عرصہ مچھ ،کوئٹہ، کراچی اور حیدرآباد کی جیلوں میں مقید رہے مگر صدیق نے 4 سال کتابوں کے مطالعے میں گزارے۔

صدیق رہا ہوئے تو ایک اور مارشل لاء ان کا منتظر تھا۔ پیپلز پارٹی زیر عتاب تھی، صدیق بلوچ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ صدیق بلوچ صحافیوں کی تنظیموں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اورکراچی پریس کلب میں متحرک رہے۔  وہ کرائم رپورٹر بنے۔ صدیق بلوچ نے خبرکی حرمت کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ صدیق بلوچ نے کوئٹہ سے انگریزی اور اردو کے دو اخبارات کا اجراء کیا۔ ان اخبارات نے بلوچستان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور نوجوان صحافیوں کے لیے تربیتی ادارے کا فریضہ انجام دیا۔ صدیق بلوچ  گزشتہ برسوں سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ وہ اپنے علاج کے لیے چین اور بھارت گئے۔

بھارت میں ڈاکٹروں نے ان کے جگر میں اسٹنٹ لگایا جس کی معیاد گزشتہ سال ختم ہوگئی تھی۔ صدیق بلوچ گزشتہ کئی برسوں سے سخت دباؤ میں تھے۔ ایک طرف طاقتوروں کو ان کے اخبارات کی پالیسی پسند نہیں تھی تو دوسری طرف جنگجو ان کے اخبارات کی پالیسی سے شاکی تھے۔  پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کی بناء پر انھیں طبی معائنے کے لیے بھارت جانے کا ویزا نہیں ملا تھا۔ کوئٹہ کا درجہ حرارت منفی دس ڈگری تھا۔ صدیق بلوچ کو کوئٹہ سے بلاوا آیا جہاں سے وہ سخت تکلیف میں واپس کراچی آئے۔ وہ ایک دن کے لیے اسپتال میں داخل ہوئے۔

اپنے انتقال سے چند گھنٹوں قبل انھوں نے اپنے بیٹے عارف سے خواہش ظاہر کی کہ انھیں لیپ ٹاپ دے دیا جائے تاکہ وہ اگلی صبح کے لیے بلوچستان ایکسپریس کے اداریے کے لیے کچھ لکھ سکیں۔ صدیق 6 فروری کو علی الصبح ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے۔ صدیق بلوچ نوجوانی میں پرامن جدوجہد کے ذریعے سیاسی تبدیلی کے نظریے کے اسیر ہوئے اور ہمیشہ عسکری مقتدرہ سے فاصلہ رکھا۔ زندگی کے آخری لمحے تک اپنے اصولوں کی پاسداری کی۔ یوں ایک عظیم صحافی کا عہد اختتام کو پہنچا ۔