|

وقتِ اشاعت :   June 24 – 2018

الیکشن کے انعقاد میں آج پورے ایک ماہ کا وقت رہتا ہے لیکن پورے ملک میں الیکشن کی بھرپور تیاریاں چل رہی ہیں کہیں پارٹی ورکرز اپنے نمائندوں کے قد آور بینرز اورپینافلیکس نصب کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں گھر اور چوراہوں پر اپنی جماعت کا پرچم لہرارہے ہیں۔

جہاں پورے ملک میں ایک عجیب سی گہما گہمی ہے تو وہیں سوشل میڈیا پر اس بار نوجوانوں نے کام نہ کرنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں،وڈیروں اورجاگیرداروں کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے کچھ نوجوانوں نے تو کھلم کھلا سوشل میڈیا پر کس کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں دینا کی مہم شروع کر رکھی ہے۔

یہ پہلی بار نہیں کہ لوگوں میں اپنے مستقبل کولیکر ایک شعوربیدار ہوتا نظر آرہا ہے اس سے پہلے بھی تاریخ میں ایسے کئی واقعات رونما ہوتے رہے ہیں سیاسی شعور کی بات کی جائے تو سب سے پہلے جس علاقے کانا م ہمارے ذہنوں میں آتا ہے وہ لیاری کا ہے ۔

جہاں قیام پاکستان سے لیکر آمریت کے ہر دور میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہی ہے یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کے اپنے جمہوری دور میں جب چوہدری اسلم کے نام نہاد آپریشن کے خلاف لیاری کے لوگوں نے خاموش رہنے کی بجائے سیسہ پلائی دیوار بننے کو زیادہ ترجیح دی۔ 

اس آپریشن کو نام نہاد کہنے کی بڑی وجہ لیاری کے وہ تریپن راستے تھے جن پر پولیس موبائل تک کھڑی نہیں کی گئی یعنی چیل چوک کے علاوہ ان تمام راستوں کو ان جرائم پیشہ کارندوں کیلئے کھلا چھوڑ دیا گیاجن سے متعلق کہا جاتا رہاکہ یہ آپریشن ان گینگز کے خلاف ہے جو لیاری کے امن کو خراب کررہے ہیں۔ اس پورے آپریشن میں چوہدری اسلم ان گینگز کے کسی بھی کارندے کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔

بات کی جائے لیاری کے حال کی تو لیاری ان دنوں عالمی کپ کے سحر میں مبتلا ہے جب الیکشن کے دنوں میں پارٹی پرچموں کی بہار ہونی چاہیئے وہیں لیاری میں فیورٹ فٹبال ٹیم برازیل سمیت گلی محلوں میں یورپی ملکوں کے جھنڈے لہرارہے ہیں ،انتخابی امیدواروں کی جگہ میسی ،رونالڈو اور نیمار کی پینا فلیکس تصویروں نے لے لی ہیں تو انتخابی نعروں کی جگہ برازیل ،،برازیل کے نعرے گونجنے لگے ہیں جہاں کارنر زمیٹنگز کے سلسلے میں مجمعے لگنے چاہئیں وہاں پراجیکٹر زکے ذریعے رات گئے میچز دیکھنے کیلئے نوجوان اور بزرگوں کی موجودگی نے لے لی ہے۔

کیا کلری، کیا بغدای،کیا ریکسرلین کا بزنجو گراؤنڈکیا پھول پتی اور فوٹولین۔ کلاکوٹ اور نوالین میں تو پیدا ہوتے ہی یوں سمجھ لیں فٹبال کا شوق امڈآتا ہے ۔کلری کا علی محمد محلہ اور سرگوات تو ان دنوں لیاری کے دیگر علاقوں کے لوگوں کیلئے تفریح کا مقام بنے ہوئے ہیں یہاں دوران میچ علاقہ معززین کی جانب سے میچ دیکھنے والوں کی تواضع باقاعدہ شربت اور چائے سے کی جاتی ہے خواہ میچ دیکھنے آنے والا شخص اس علاقہ کا رہائشی ہو یاکسی اور علاقہ سے آیا ہوا مہمان،، 

اسی طرح بمباسہ اسٹریٹ بغدادی کی ایک گلی نے پورے شہر کو اپنے سحر میں مبتلا کر رکھا ہے برازیل کے میچ پر جو رونق یہاں ہوتی ہے شاید ہی برازیل میں ہوتی ہو۔ کبھی کبھارتو شک ہونے لگتا ہے کہ کیا واقعی یہ برازیل کا علاقہ تو نہیں؟؟ کلاکوٹ میں کوچ محمد سلیم کے کلاکوٹ یونین اسٹار فٹبال کلب کے باہر لوگوں کے رش کو جب دیکھتا ہوں تو لیاری سے متعلق بزرگوں سے سنی باتوں پررشک ہوتا ہے کہ کس طرح کسی گراؤنڈمیں ہونے والے فٹبال میچ کو دیکھنے کیلئے پورالیاری اپناکام کاج چھوڑ کر میچ دیکھنے چلا آتا تھا۔

ملک بھر میں الیکشن کا بول بالا ہے اور لیاری میں اس دفعہ پیپلز پارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر منظور نظر کسی فرد کی بجائے براہ راست چئیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو خود اس نشست پر کھڑا کیا گیا ہے جبکہ صوبائی نشستوں پر وہی کچھ پرانے چہرے پیپلزپارٹی کی جانب سے اتارے جارہے ہیں جن سے یہاں کے لوگوں کی اکثریت مطمئن نہیں۔ 

پیپلزپارٹی کے مدمقابل لیاری کے ہی اپنے سپوت اور سماجی ورکر پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی اورپاک سرزمین پارٹی کی جانب سے ناصرکریم ،شکور شاد،عبدالرشید بلوچ،صادق رشید میدان میں اتر رہے ہیں، اسی میدان میں ماضی کے بھی ایک سیاسی کردار حبیب جان کی جانب سے بھی عین الیکشن کے وقت انٹری ماری گئی ہے ۔اب دیکھنا یہ کہ ان میں سے کس کی دال گل پائے گی یا اور کس کی نہیں۔ 

لیاری میں اس دفعہ ایک کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع کی جارہی ہے اس کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کی جانب سے وہ زیادتیاں ہیں جو شاید ہماری نسل تو کبھی نہیں بھول سکتی۔خیر مقابلہ کس کا ہوگا کون جیتے گا یہ بعد کی بات ہے ابھی تو لیارین فیفا کے عالمی کپ میں اپنی تما م تر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں بلکہ اس بات کو کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ لیاری میں الیکشن مہم مگر فیفا کے بعد۔