|

وقتِ اشاعت :   September 15 – 2018

یار لوگ ملکی مقتدرہ کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوں لیکن اس کی چالاکی کی داد دینی پڑتی ہے کہ زرداری جیسے شاطر کو بھی بوتل میں ایسے اتار دیاکہ وہ اس کو اپنامسکن سمجھ بیٹھے ۔نیا پاکستان بننے جارہا ہے لوگ اس بات پر یقین کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں جبکہ ملکی مقتدرہ نے آدھا نیا پاکستان بنا لیا۔ 

نواز شریف ‘ آصف زرداری ‘ مولانا فضل الرحمان ‘ محموداچکزئی حتیٰ کہ نئے پاکستان کی ضرورت اور نئے پاکستان کے پیش رو عمران خان سے عمر میں چھوٹے اسفندیار کو بھی نئے پاکستان میں جگہ نہ دی گئی ۔ملکی سطح پر نعرے دو ہیں’’ نوجوانوں کو آگے آنے دو اور کرپشن کا خاتمہ‘‘ خبر یہ بھی گرم ہے۔

کہ مقتدر حلقوں میں شاہ محمود قریشی ‘ بابر اعوان اور شیریں مزاری پاکستانی نوجوانوں کی نمائندگی کررہے ہیں ’’ اور اللہ جسے چاہے عزت اور جسے چاہے ذلت دے ‘‘ آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم ‘ بھٹو اور بے نظیر کی ناطہ داری میں برطانیہ ‘ کینیڈا ‘ امریکا اور فرانس سے رشتے جوڑے اور نواز شریف نے کاروباری ستونوں کی بنیاد پر بھارت ‘ سعودی عرب ترکی اور چین سے ناطے بنالیے ۔ 

ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا نواز شریف دونوں بقول شیخ رشید مقتدرہ کے گملوں میں انڈے دے دے کر سیاسی بلاغت کی منازل طے کرتے رہے لیکن پارلیمانی طاقت کے حصول کے بعد ان گملوں کو بھول بیٹھے جہاں انہوں نے انڈے دینے کے لئے مطلوبہ احداف مقررکیے۔ طاقت و ہ ظالم احساس ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لئے بلا اورشیر اپنے جنم داتاؤں کو کھا جاتے ہیں ۔

جنگل کے نفسیات کے تحت بلے اور شیر کو معلوم ہے کہ ان کے پلے بڑے ہو کر ان کے جان کے پیچھے پڑ جائیں گے اس لیے وہ ان کو شیر خواری کے دوران ہی قتل کرنے کی سعی میں لگ جاتے ہیں ۔

مگر یہ صرف جنگل کا قانون نہیں بلکہ انسانی جنگل میں جب فرعون کو پتہ چل جائے کہ کوئی ایسا بچہ جنم لینے جارہا ہے جو کل ان کی سلطنت اور اقتدار کو چیلنج کر سکتا ہے تو وہ صرف اس ایک بچے کی نہیں بلکہ اس دوران جنم لینے والے تمام بچوں کو قتل کرنے کا حکم صادر فرما دیتا ہے اس کے برعکس جد لیات کا اپنا اصول ہے کہ ہر فرعون کیلئے موسیٰ کا جنم لازم ہے اوراس جدلیات کا قانون یہ بھی بتاتا ہے کہ صرف مثبت قوتیں زندہ رہنے کے لئے تگ و دو نہیں کرتیں بلکہ منفی قوتیں بھی اسی جدوجہد میں لگی رہتی ہیں ۔

1999ء میں جب مقتدرہ کی طرف سے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو اس وقت مقتدرہ کو محسوس ہوا تھا کہ ذوالفقار اور بے نظیر بھٹو کی طرح نواز شریف بھی ’’عالمی مقتدرہ ‘‘کے اندر اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے ۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جب مقتدرہ کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ اقتدار آصف زرداری کے پی پی کے حوالے کریں تو اس دوران انہیں یہ احساس بھی ہو چکا تھا کہ زرداری بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے ناطے اپنے تعلقات عالمی مقتدرہ سے جوڑ چکا ہے یہ احساس اس وقت پختہ شکل اختیار کر گیا جب زرداری بطور صدر پاکستان کچھ مدت کیلئے امریکا میں مقیم رہے تب صدر آصف زرداری کو سبق سکھانے کے لئے نواز شریف کو2013میں بھاری اکثریت کے ساتھ آزمانے کی کوشش کی گئی ۔

آصف زرداری اپنی چالاکی کی وجہ سے نواز شریف کے جال میں پھنس نہیں سکے اسی اثناء نواز شریف کے تعلقات ایک دفعہ پھر مقتدرہ سے خراب ہوگئے مگر انہوں نے معافی شافی کے بجائے ’’عالمی مقتدرہ‘‘ کو اپنے کاروباری اور سیاسی اثر ورسوخ کے ذریعے پاکستانی مقتدرہ کوزیر کرنے کے لئے کو استعمال کرنے کی کوشش کی گوکہ وہ اس منظرنامے میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر سکے مگر انہوں نے پاکستانی مقتدرہ کو رام کرنے کیلئے چین ‘ ترکی اور سعودی حکمرانوں کو استعمال کیا ۔ 

تینوں ممالک پاکستانی مقتدرہ سے قریبی قربت رکھتے ہیں ۔ انہی ممالک کے اثر ورسوخ کی وجہ سے پاکستانی مقتدرہ نواز شریف کے ساتھ وہ ہاتھ نہ کر سکی جس کی انہیں تمنا تھی ۔

اس لیے انہوں نے اپنی سابقہ نفسیات ‘ عادات و اطوار کے بر خلاف عدلیہ کا سہارا لے کر نواز شریف حکومت کو پانچ سال کی مدت پوری کرنے کے بعد سزاکا مستحق سمجھا حالانکہ نواز شریف کو مقتدرہ کی طرف سے سبق مل چکا ہے اور آصف زرداری کو ایف بی آر ‘ عزیر بلوچ ‘ منظور وسان ‘ شرجیل میمن ‘ ایان علی اور دیگر کیسز میں پھنسا کر صادق سنجرانی کو چئیرمین سینٹ قدوس بزنجوکو وزیراعلیٰ بلوچستان اورعارف علوی کو صدر پاکستان منتخب کرانے میں استعمال کیا لیکن چونکہ آصف زرداری کو بطور صدر پی پی اور بے نظیر اور بھٹوذوالفقار کے جانشین کے طورپر’’ عالمی مقتدرہ‘‘ میں ایک اہمیت حاصل ہے جس کی خبر ملکی مقتدرہ کو بخوبی و خواص ہے ۔

اس لیے مقتدرہ کی خواہش ہے کہ زرداری کو بھی راستے سے ہٹایاجائے۔ ایم کیو ایم قیادت کوتقسیم کرنے کے پیچھے بھی یہی مقاصد کار فرما رہے ہیں اس تناظر میں آگے چل کر آصف زرداری ‘ شہباز شریف بشمول عمران خان ان تمام سیاستدانوں کو دھیر ے دھیرے سیاسی منظر نامے سے ہٹایا جائے گا جن کے تعلقات ملکی مقتدرہ کو کسی نہ کسی طور عالمی مقتدرہ سے ملتے نظر آرہے ہیں ۔

ایسے تمام سیاستدانوں کے منظر عام سے ہٹانے کے بعد ملک میں جو سیاسی قیادت سامنے آئے گی وہ نہ صرف عالمی معاملات میں بلکہ ملکی معاملات میں بھی اندرونی مقتدرہ کی دست نگر ہوگی۔ اس معرکے کے اندر ’’نیا پاکستان اور کرپشن کا خاتمہ ‘‘متاثرکن اور خوش کن نعرے ہیں۔