|

وقتِ اشاعت :   October 6 – 2018

کوئٹہ: صوبائی وزیرخزانہ میرعارف محمد حسنی اور صوبائی وزیر اطلاعات میر ظہور بلیدی نے کہا ہے کہ بلوچستان شدید مالی بحران کا شکار ہے اگر وفاقی حکومت نے بلوچستان کیلئے کوئی خصوصی گرانٹ فراہم نہیں کی تو آئندہ مالی سال کے دوران بلوچستان کے پاس ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے بھی پیسے نہیں ہونگے،حکومت نے امن و امان ،صحت اور عوام کو پینے کے صاف پانی کی اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے بلوچستان میں امن و امان کی بہتری کیلئے پہلے 5ارب روپے خرچ ہوتے تھے اب امن و امان کیلئے بجٹ میں 40ارب روپے رکھے گئے ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی وفاق میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے جبکہ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں پی ٹی آئی ہماری اتحادی جماعت ہے یہ تاثر غلط ہے کہ پی ٹی آئی ہم سے جدا ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعہ کو سول سیکرٹریٹ میں سیکرٹری خزانہ نورالامین مینگل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ وفاق میں ایک مالی بحران ہے مگر بلوچستان میں یہ بحران فنانشنل بھی ہے اور ماضی میں یہاں اچھی گڈگورننس نہ ہونے کے باعث یہ مالی بحران وفاق کے بحران سے زیادہ ہے کم نہیں ہے وزیراعلیٰ جام کمال کی قیادت میں ہم مایوس نہیں اور ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ اسمبلی نے بلوچستان کی تاریخ میں حجم کے حوالے سے 352ارب روپے کا مجموعی بجٹ پیش کیا جس میں 75ارب روپے کا خسارہ تھا اس میں 63ارب تو بجٹ بک میں ہیں جبکہ 13ارب روپے گزشتہ مالی سال کے سال جولائی میں کیش کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا ترقیاتی بجٹ 88ارب روپے ہے اس میں بلوچستان کا ذاتی ترقیاتی بجٹ 77ارب روپے کاہے بقایا 11ارب روپے وفاقی حکومت کو صوبے سے ملنے ہیں جو طے شدہ اسکیمات پر خرچ ہونگے صوبے کے پاس اپنی ترقیاتی اسکیمات میں صرف ڈیڑھ ارب روپے دستیاب ہیں جو خرچ ہوچکے ہیں اور صوبے کے پاس ترقیاتی اسکیمات کو مکمل کرنے کیلئے سال جاریہ میں کوئی رقم دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں قواعد و ضوابط کے خلاف ہزاروں بھرتیاں کرکے نان ڈویلپمنٹ کا خرچہ گزشتہ 8سال میں 34ارب سے بڑھاکر اس سال 205ارب تک کردیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ آج سے آٹھ سال پہلے ہم امن و امان پر صرف 5ارب روپے خرچ کرتے تھے اب 40ارب خرچ کررہے ہیں یہ ایجوکیشن کے بعد ہمارا دوسرا بڑا خرچہ بن گیا ہے صحت سیکٹر کا جو خرچہ پہلے دوسرے نمبر پر تھا اب ہمارے امن و امان پر زیادہ خرچ ہونے کی وجہ سے تیسرے نمبر پر ہے ہمیں اپنی ایف سی اور آرمڈ فوروسز پولیس اور لیویز پر ناز ہے ہمیں انکی قربانیوں پر فخر ہے ہم اپنی ترقی کے پیسے کو منتقل کرکے امن و امان کی ضروریات پوری کر رہے ہیں مگروفاق سے اس ضمن میں ہماری کوئی مدد نہیں کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں نے صرف خرچ کئے وہ خرچے جسکا کوئی اقتصادی ،معاشی ،یا سماجی علاقائی فائدہ نہیں ہوا کسی حکومت کو یہ احساس نہیں ہوا کہ سندھ ریونیو بورڈ یا پنجاب ریونیو اتھارٹی کی طرح کے ادارے ہوں جو آپ کی محصولات بڑھائیں اب ہم وہ کر رہے ہیں مگر انکے ثمرات بیس دنوں میں ممکن نہیں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں مگر منفی 75ارب روپے کے ابتداء کے ساتھ یہ ممکن نہیں ہم وفاق سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ صوبائی حکومت کی مدد کریں تاکہ صوبائی حکومت عوام کو ڈلیور کرسکے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے اور بلوچستان کا مستقبل ایک نیک نیت ،محنتی ایماندار وزیراعلیٰ کے ہاتھ میں ہے انکی مدد کرے انکو وسائل دیں تاکہ پاکستان وار بلوچستان کو ڈلیور کرسکیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ 8سے 10سال کے دوران ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں 206ارب روپے خرچ ہورہے ہیں جبکہ ملازمین کو پنشن میں مد میں 25ارب دے رہے ہیں جو 2023میں بڑھ کر 123ارب روپے تک پہنچ جائیں گے وفاقی پی ایس ڈی پی میں سابقہ حکومت نے 5ہزار اب روپے دیگر صوبوں میں خرچ کئے جس میں سے بلوچستان کو صرف 320ارب روپے دیئے گئے جن میں سے زیادہ ترفنڈز جاری اسکیمات کو مکمل کرنے کیلئے مختص کئے گئے تھے موجودہ حکومت نے پی ایس ڈی پی سے ذاتی نوعیت کی اسکیمات کو نکال کر اجتماعی منصوبوں کو ترجیح دینے کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے جو انکا ازسرنو جائزہ لے گی ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کسی بھی رکن اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز نہیں روکے جو سابق ترقیاتی کام سابق دور حکومت میں شروع کئے گئے تھے انہیں مکمل کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے 83کروڑ روپے کے صوابدیدی فنڈز نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے یہ رقم صوبے کی تعمیر و ترقی پر خرچ کی جائے گی ایک اورسوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت کے پاس پی ایس ڈی پی کے فنڈز کے بعد ترقیاتی اخراجات کیلئے صرف80کروڑ روپے بچے ہیں جبکہ بجٹ میں بھی ہمیں 75ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان سے ملک بھر کی طرح بلوچستان کی بھی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں وہ آج کوئٹہ کے دورے پر آرہے ہیں ہماری ان سے یہی اپیل ہے کہ وہ بلوچستان کیلئے خصوصی پیکج کا اعلان کریں۔انہوں نے کہا کہ نگران صو بائی حکومت نے اپنے دوراقتدا ر کے دوران سرکاری محکموں میں قواعد و ضوابط کے برعکس بھرتیاں کی ہیں جس کا وزیراعلیٰ نے نوٹس لیتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اسکا جائزہ لیکر رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کریگی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت این ایف سی ایوارڈ میں اپنا حصہ لینے کیلئے بھر پوردفاع کریگی۔