|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2018

گھرکی مین لیاری چاکیواڑہ شفٹنگ کے بعد لیاری میں  ایکٹیوٹیز کی بابت میں خودکو کچھ زیادہ ہی متحرک پارہا ہوں جس کا  کریڈٹ  لیاری کے  ادبی و علمی طبقے کو جاتا ہے جنہوں نے  لیاری میں  طویل اندھیری  رات یعنی بدامنی کے بعد لیاری  میں  اپنی سرگرمیوں کو وسعت بخشی ۔

گزشتہ روز  فیس بک پر نوساچ فلمز پروڈکشن کی جانب سے  ان کی آنے والی پہلی  فیچر فلم ’’دودا‘‘ کی میوزک لانچنگ اور گوادر  کے  دوستوں کی جانب سے بنائی  گئی بلوچی مووی زراب کی آرٹس کونسل میں اسکریننگ پر نظر پڑی تو اس دعوت کو کسی صورت  رد کرنے میں ہچکچاہٹ  محسوس کئے بغیر چھٹی کے روز بھی آفس میں طویل شفٹ کرنے کے باجود آرٹس کونسل کسی نہ کسی طرحخود کو پہنچا ہی دیا۔

آرٹس کونسل میں جہاں دوستوں کی اکثریٹ موجود تھی تو وہیں لیاری و دیگر علاقوں سے بلوچ  بچوں و خواتین کی بڑی تعداد بھی تھی۔  پروگرام کا آغاز میزبان در بی بی بلوچ جو لیاری لٹریچر فورم کی ایک متحرک رکن بھی ہیں  ایک بے مثال بلوچی شعر سے کیا۔  دربی بی کی میزبانی  میں یوں تو انگلش و  اردو  کے امتزاج  کے ساتھ لہجہ تند و تیز  زیادہ  تھا  اس کے باوجود وہ احسن  طریقے سے پروگرام کو سنبھالے ہوئی تھیں۔

پروگرام میں استاد ممتاز علی سبزل کے بینجونے بلوچی دھنوں سےجان  ڈالی جو ہمارے لئے ایک تاریخی لمحہ تھا۔  اس کے بعد استاد محمود علی خان کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا جنہوں  نے اس پروگرا م کے کرداروں و آرگنائزر میں کچھ اسناد تقسیم کیں جس کے  بعد باقاعدہ طور پر ایک بلوچ باکسر کی زندگی پر نوساچ فلمز پروڈکشن کی جانب سے بنائی گئی مووی “دودا” کی میوزک لانچنگ کا اعلان ہوا  اور “زندمان” کے نام سے پہلی آڈیو اسٹیج پرلگے پردے پرنشر کی گئی۔

یہ گریٹ لیجنڈ بلوچ گلوکار استاد نورمحمد نورل کی آواز میں تھی جس کی شاعری اور کمپوزنگ عمران ثاقب نے بڑی خوبصورتی سے کی تھی اور موسیقی  ایک بلوچ نوجوان جو شاید بیس سال سے بھی کم عمر کا ہو مزمل موزی  کی جانب سے ترتیب دی گئی تھی۔  اس کے بعد  دوسرا گانا جو شاید اس مووی کا ٹائٹل سانگ بھی  ہے  “کٹے ما” یعنی جیتیں گے ہم  دکھایا  گیا جس پر  حاضرین محفل جھوم اٹھے۔

یہ گانا محمد بلوچ اور آصف بلوچ کی آواز میں تھا اوراسے بھی عمران ثاقب نے بڑی عمدگی سے ترتیب دیا تھا۔پروگرام میں اگلا گانا “منا زند لوٹی” یعنی مجھے تم اور زندگی چاہیئے، مشہور بلوچ گلوکار باسط بلوچ اور حنا حبیب کی آواز میں تھا جس کے بول انتہائی خوبصورت تھے۔

پروگرام میں اذان عشاء کے مختصر وقفے کے بعد مزید دو گانے “وھدے ما وتی” اور دیما جنزان بھی چلائے گئے جو اپنی مثال آپ تھے۔ یہ تمام گانے عمران ثاقب  کی شاعری پر مبنی تھے جن میں “وھدے ما وتی” استاد نورمحمد نورل کی آواز جبکہ دوسرا گانا عمران بلوچ کی آواز میں تھا جس کی موسیقی علیم بلوچ نے ترتیب دی تھی۔

ان گانوں کے بعد ایک مرتبہ پھر اسٹیج پر در بی بی بلوچ نمودار ہوئیں اور ان گانوں پر استاد نور محمد نورل، استاد محمود علی خان ، استاد ممتاز علی سبزل ، وحید نور اور مزمل موزی کو اسٹیج پر آکر اپنی رائے کے اظہار کی دعو ت دی اور ساتھ ہی عمران ثاقب کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دیکر  مہمانوں سے ان کی  رائے پر سوالات کئے۔

استاد نور محمد نورل :

“جس طرح آج بلوچ نوجوانوں نے اس محفل کو سجایا اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ بلوچ نوجوانوں  میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ وہ ٹیلنٹ  اسٹیج کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھ پر بھی مل جاتا ہے لیکن مجھے افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ علم کی کمی کے باعث ان کا ٹیلنٹ دنیا کے سامنے اجاگر نہیں ہوتا۔ ان نوجوانوں کو چاہیئے کہ جس کسی میدان میں بھی ہیں  اپنے ٹیلنٹ کو علم  میں اضافے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھائیں۔”

استاد محمود علی خان:

“میرا رشتہ آج پھر لیاری سے جڑ گیا ہے اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا رشتہ ہے۔ لیاری کے نوجوانوں کو اتنا آگے پاکر خوشی  مل رہی ہے۔”

استاد ممتاز علی سبزل:

“بلوچی موسیقی میں جو تازگی اور جو خوبصورتی ہے وہ کہیں نہیں ملتی۔ ہم نے موسیقی پر بہت تجربے کیے،  آج جس کا ثمر ہمارے مغربی ممالک کے شاگردوں کی صورت مل رہا ہے۔”

مزمل موزی:

“مجھے سات سال کی عمر سے ہی میوزک سیکھنے کا شوق تھا اور میں ہر وقت سوچتا تھا کہ میں کچھ ایسا  کرسکوں جو مختلف ہو اور آج  خود کو یہاں پاکر خوشی مل رہی ہے۔”

عمران ثاقب :

“آرٹ ایک بیوپار نہیں یہ ایک عبادت ہے ۔ اس کیلئے میں ان تمام دوستوں کا شکر گزار  ہوں جنہوں نے اس میں میرا ساتھ دیا۔ “دودا” کی موسیقی  کی کمپوزنگ  مجھ اکیلے  کی محنت نہیں  یہ ان تمام  دوستوں کی محنت ہے جنہوں نے دن رات مل کر کام کیا۔”

اس مختصر مباحثے کے بعد جان البلوشی کی فلم “زراب” کی باقاعدہ اسکریننگ سے قبل فلم کے مرکزی کردار  انور صاحب خان کیلئے  دومنٹ کی خاموشی اختیار کی گئی  جو حال ہی میں انتقال کرچکے ہیں۔ 

یہ کہانی ایک خاندان کی ہے ، ایک ایسے خاندان کی جو  معاشی  طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،  جس میں فلم کا مرکزی کردار ایک نکما شخص ہے جو بڑے بڑے خواب دیکھتا ہے مگر غلط راہ پر چل کر خود کی اور پورے خاندان کی بربادی کا باعث بنتا ہے۔  یہ دونوں فلمیں بااثر سرمایہ کاروں کی منتظر ہیں  تاکہ  مستقبل قریب میں یہ پاکستان سمیت بیرون ممالک سینماؤں کی زینت بن  سکیں۔

اسکریننگ کے بعد دربی بی نے سر دانش بلوچ،ابرار الحسن،  اویس رمضان ،عادل بزنجو،شاہ نواز شاہ ، وش نیوز کے سی ای او احمد اقبال بلوچ  اور ذاکر داد بلوچ کو رائے  کے اظہار کیلئے مدعو کیا جنہوں نے  نہ صرف فلم کی سینماؤں میں عنقریب  نمائش کی امید ظاہر کی بلکہ اس کیلئے سرمایہ کاری کرنے اور عوام سے باقاعدہ  اس کی نمائش میں مدد کے لئے اپیل بھی کی۔


اس تحریر کے مصنف امجد بلیدی منجھے ہوئے صحافی ہیں جن کے مختلف اخبارات اور جرائد میں کالم اور بلاگ شایع ہوتے ہیں۔ وہ ایک نیوز ٹی وی  چینل سے منسلک ہیں جہاں وہ صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دے  رہے ہیں۔ امجد بلیدی سےٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔