|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2018

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتیں اپنے حلقوں میں حکومتی مداخلت پر سیخ پا اجلاس میں اپوزیشن نے کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی نئی گورننگ باڈی میں اپوزیشن کو نظر انداز کرنے ،کوئٹہ اور گوادر میں پانی کی قلت ، ماہی گیروں کے احتجاج پر ایوان کی توجہ مبذول کرائی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے قحط سالی سے متعلق حکومتی موقف کو مسترد کردیا ۔ 

ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغواء سے متعلق اپوزیشن کی تحریک التواء آئندہ اجلاس میں بحث کیلئے منظور اجلا س میں وزیر خزانہ نے آڈیٹر جنرل آف پاکستا ن کی آڈٹ رپورٹ برحسابات آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی کارکردگی برائے آڈٹ رپورٹ کوئٹہ آب رسانی اور ماحولیاتی ترقی کا منصوبہ ایوان کی میز پر رکھا ۔

اقلیتی کاکس کا قیام عمل میں لانے کی تحریک منظور کرلی گئی ۔ گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی نئی گورننگ باڈی تشکیل دی گئی جس میں اپوزیشن اراکین کی کوئی نمائندگی نہیں جبکہ حکومتی نشستوں سے چار اراکین اسمبلی کو اس میں شامل کیا گیا ہے ۔

وہ لوگ جو انتخابات میں کامیاب نہیں ہوئے اور ان کو خوش کرنے کے لئے قانون بنا کر انہیں معاون خصوصی بنایا گیا انہیں بھی اس باڈی میں شامل کیا گیا ہے ،بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں موجود مسائل اور خرابی کی جڑ کیوڈی اے ہے ۔

اس ادارے نے کوئٹہ شہر کے مسائل میں کمی تو نہیں کی بلکہ اضافے کا باعث بنا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت ہمیں اس حوالے سے مطمئن کرے، بلوچستا ن نیشنل پارٹی کے احمد نواز بلوچ نے ملک نصیر شاہوانی اور اختر حسین لانگو کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیوڈی اے کی پالیسیوں سے نالاں ہیں کیوڈی اے کی گورننگ باڈی میں اپوزیشن کی کوئی نمائندگی نہیں ہے فوری طور پر موثر نمائندگی دی جائے تاکہ کوئٹہ کے لئے بہتر ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کو ممکن بنایا جاسکے ۔ 

انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت کوئٹہ سمیت پورے صوبے کا اہم مسئلہ ہے گزشتہ دنوں جب وزیراعلیٰ نصیرآباد ڈویژن کے دورے پر تھے اسی دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھاگ میں پانی کے مسئلے کا سوموٹو نوٹس لیا مگر صوبائی حکومت نے مسلسل خاموشی اختیارکئے رکھی اور صوبائی حکومت کار اور جیپ ریلی میں مصروف رہی فوری طو رپر عوام کو پینے کا پانی فراہم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں گوادر جانے کا اتفاق ہوا وہاں جگہ جگہ لوگوں کو پانی کے انتظار میں بیٹھے دیکھاضرورت اس بات کی ہے کہ کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں اور ڈیم کی تعمیر پر توجہ دی جائے۔

صوبائی وزیر پی ایچ ای نور محمد دمڑ نے کہا کہ یہ مسائل اگرچہ آج کے ایجنڈے پر نہیں مگر پھر بھی اپوزیشن کی جانب سے ان پر بات کی جارہی ہے کار جیپ ریلی ایک الگ ایونٹ تھا جہاں تک پانی کی قلت کا مسئلہ ہے تو ہم کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں عوام کو پانی کی فراہمی کے لئے کوشاں ہیں کوئٹہ میں جہاں بھی شکایت ملتی ہے فوری کارروائی کرتے ہیں ۔

ہم نے ریکوری کا سلسلہ بھی تیز کردیا ہے خراب ٹیوب ویلوں کی شکایت ملتے ہی فوری مرمت کرائی جاتی ہے جہاں تک پرائیویٹ ٹینکروں پرپابندی کا مطالبہ ہے تو ہم یہ بھی کرسکتے ہیں لیکن شہر میں جہاں واسا او ر اندرون صوبہ پی ایچ ای کا سٹرکچر نہیں پرائیویٹ ٹینکروں کی بندش سے وہاں کے عوام کو پانی کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

اس کے باوجود ہم نے گزشتہ پانچ مہینوں میں جتنے کام کئے ہیں اتنے کسی حکومت نے پانچ سال کے دوران بھی نہیں کئے ۔بھاگ میں پانی کے مسئلے کی اطلاع ملی یہ ایک تالاب کا مسئلہ تھا وزیراعلیٰ نے اس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ساڑھے سات کروڑ روپے جاری کردیئے ہیں آئندہ بھی کوئی مسئلہ درپیش آیا تو اس کے لئے حل کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے۔

اس دوران صوبائی وزیر پی ایچ ای نور محمد دمڑاوراختر حسین لانگو کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جس پر ڈپٹی سپیکر نے اختر حسین لانگو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بیرون ملک دوروں کی بجائے عوامی مسائل کے حل کے لئے وزیرصاحب کے پاس جائیں ۔

اجلاس میں بی این پی کے ثناء بلوچ کا پوائنٹ آف آرڈر پر خشک سالی سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی 83.4فیصد آبادی بھوک اور افلاس میں اپنی زندگی بسر کررہی ہے قحط سالی سے متعلق پی ڈی ایم اے کے فراہم کردہ اعدادوشمار درست نہیں ہیں بلوچستان کے 14نہیں بلکہ تمام اضلاع خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں ۔

گزشتہ اجلاس میں ہم نے اس حوالے سے ایک قرار داد بھی لائے تھے جو منظور ہوگئی تھی اس قرار داد میں پورے صوبے کو آفت زدہ قرار دینے ، زرعی قرضوں کی معافی اور شمسی توانائی کے ٹیوب ویلوں کی تنصیب سمیت دیگر ہنگامی اقدامات کا مطالبہ شامل تھا ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ اس ضمن میں ایک کمیٹی قائم کرکے وفاقی حکومت سے رجوع کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے بلوچستا ن اسمبلی میں این ایف سی ایوارڈ اورسیندک پراجیکٹ سے متعلق ہماری تجاویز پر عملدرآمد نہیں ہوا جس طرح سے حکومت چلائی جارہی ہے اس سے صوبے کی پسماندگی کا ازالہ ممکن نہیں اس سے لوگ مزید بھوک و افلاس کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔

اجلاس میں پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ 13دسمبر2018کو کوئٹہ شہر سے معروف ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو اغواء کیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں خوف وہراس پایا جاتا ہے ۔

لہٰذا اسمبلی کی کارروائی روک کر اس فوری نوعیت کے اہم عوامی مسئلے کو زیر بحث لایا جائے بعدازاں سپیکر نے تحریک التواء منظور کرنے اور21دسمبر کے اجلاس میں اس پر عام بحث کرانے کی رولنگ دی ۔

اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ میر محمد عارف محمد حسنی نے اسمبلی قواعد وانضباط کار مجریہ 1974ء کے قاعدہ نمبر174کے تحت آڈیٹر جنرل آف پاکستا ن کی آڈٹ رپورٹ برحسابات حکومت بلوچستان برائے مالی سال 2017-18اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی کارکردگی برائے آڈٹ رپورٹ بر کوئٹہ آب رسانی اور ماحولیاتی ترقی کا منصوبہ یوان کی میز پر رکھا۔

اجلاس میں اقلیتی رکن دنیش کمار نے بلوچستان صوبائی اسمبلی مجریہ1974ء کے قاعدہ نمبر180کے تحت بلوچستان صوبائی اسمبلی میں اقلیتی کاکس کا قیام عمل میں لانے کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دی ۔

اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے قحط اور خشک سالی سے متعلق حکومتی اعدادوشمار اورمتاثرہ اضلاع کو فراہم کی جانے والی امدادی سہولیات سے متعلق تفصیلات کو حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم اے نے14اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا ہے جن میں بارکھان ، کوئٹہ ڈویژن ، قلات ڈویژن ، زیارت ، رخشان ڈویژن اور مکران ڈویژن کے اکثر اضلاع شامل نہیں ہیں ۔

اپوزیشن نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت پورے صوبے کو آفت زدہ قرار دے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا حکومتی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے صرف پانچ لاکھ لوگ خشک سالی سے متاثر ہیں مگر ہمارا دعویٰ ہے کہ اس سے ایک کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں جن اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے حکومت کو حقائق کے برعکس معلومات فراہم کی ہیں انہیں معطل کیا جائے ۔

ایوان میں خشک سالی سے متعلق صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے سلیم کھوسہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جس انداز میں قحط سالی کو ایوان میں پیش کررہا ہے ایسا کچھ نہیں ہے ہم نے تمام ڈپٹی کمشنر ز کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں قحط سالی سے سفارشات مرتب کرکے پی ڈی ایم اے کو ارسال کریں ۔

تاہم 14اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے اپنے اضلاع میں قحط سالی کی نشاندہی کی ہے اور ان اضلاع کو امدادی سامان راشن اور متاثرہ لوگوں کے لئے رقم ڈپٹی کمشنرز کو فراہم کردی گئی ہے بلوچستان میں قحط سالی پہلی مرتبہ نہیں آئی بلکہ اس سے پہلے بھی مختلف ادوار میں قحط سالی کے اثرات پیدا ہوتے رہے ہیں موجودہ قحط سالی اس نوعیت کی نہیں پھر بھی حکومت اقدامات اٹھارہی ہے ۔

اپوزیشن بتائے کہ قحط سالی سے انسانوں اور جانوروں کی اموات کے کتنے واقعات رونما ہوئے ہیں اور کتنے لوگوں نے ان اضلاع سے نقل مکانی کی ہے ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ متاثرہ اضلاع میں صرف ٹینٹ اور اشن کی فراہمی سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے تاہم ہم اپنا کام بہتر انداز میں کررہے ہیں جو اضلاع متاثر ہیں وہاں ڈیموں کی تعمیر کی تجویز زیر غور ہے ۔

اپوزیشن کو ساتھ لے کر قحط سالی سے متعلق مزید اقدامات اٹھائے جائیں گے۔صوبائی وزیر زراعت زمرک اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل آج کے نہیں آج جو اپوزیشن میں بیٹھے ہیں ان سب کی بلوچستا ن میں حکومت رہی ہے انہوں نے عوام کے لئے کیا کیا ہے؟موجودہ اپوزیشن کی جماعت گزشتہ حکومت کی صوبے اور مرکز میں اہم اتحادی رہی ہے جو اپنی ناکامیوں کا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈالنا چاہتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر کام کرنا چاہئے موجودہ حکومت کو تین ماہ کا عرصہ مکمل ہوا ہے ایسے میں ہم 25سالوں کے بحرانوں کا خاتمہ کیسے کرسکتے ہیں۔بلوچستان کی 90فیصد آبادی کادارومدار زراعت پر ہے اپوزیشن ہمیں تجاویز دے کہ بہتری کے لئے ہمیں مزید کیا کرنا چاہئے ۔

قبل ازیں قحط سالی سے متعلق بحث کے دورا ن صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک اچکزئی نے جب ثناء بلوچ کو بات کرنے سے روکا اور انہیں کہا کہ میں آپ کی عزت کرتا ہوں تو اس پر ثناء بلوچ نے جواب دیا کہ مجھے اللہ نے عزت دی ہے آپ مجھے عزت دینے کی بجائے بلوچستان کے لوگوں کو خوراک دیں ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے حمل کلمتی نے کہا کہ یہاں بتایا گیا کہ گوادر میں زیر زمین پانی کی سطح گررہی ہے حالانکہ وہاں تو پانی ہے ہی نہیں عوام طویل خشک سالی کے باعث بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں جو ہم دکھا سکتے ہیں نہ صرف مکران ڈویژن بلکہ لسبیلہ سمیت پوری ساحلی پٹی بری طرح سے متاثر ہے بارشیں نہ ہونے سے آبی حیات کی پیداوار میں بڑی کمی آئی ہے حکومت ان مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اے ایریا اور بی ایریا اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کی تبدیلی تک محدود ہے ۔

اصل مسائل پر بات ہونی چاہئے کیونکہ عوام متاثر ہیں گوادر میں ایکسپریس وے کی تعمیر سے ماہی گیروں کے لئے مسائل پیدا ہورہے ہیں اس سے پہلے بھی وفاقی حکومت کے اقدامات کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لئے صوبائی حکومت کو کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑے اس صورتحال پر صوبائی حکومت وفاق سے بات کرے ۔ 

جمعیت علماء اسلام کے اصغرترین نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے صرف14اضلاع کی رپورٹ آئی ہے بتایا جائے کہ باقی اضلاع کی رپورٹ آئی ہے جن ڈپٹی کمشنرز نے رپورٹ نہیں دی ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی یکطرفہ اقدامات سے گریز کیا جائے بلوچستان نیشنل پارٹی کے اکبر مینگل نے کہا کہ کراچی سے مولوی نصیر مینگل کو اٹھایاگیا ہے اس پر صوبائی حکومت سندھ حکومت سے رابطہ کرے کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کے لئے احتجاج کررہے ہیں ۔

اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ میرے پاس پی ڈی ایم اے کی جانب سے پیش کئے جانے والے اعدادوشمار موجود ہیں حکام کی جانب سے بتایاگیا ہے کہ خاران میں 45ہزار افراد خشک سالی اور قحط سالی سے متاثر ہیں جبکہ پی ڈی ایم اے نے 1117لوگوں کے لئے راشن بھیجا ہے ۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اگر بھیجا جانے والا راشن ساڑھے12کلو فی خاندان تقسیم کیا جائے تو بھی یہ صرف تین سو خاندانوں کے لئے ہے باقی لوگ کہاں جائیں گے ۔راشن کی فراہمی قحط سالی پر قابو پانے کا فوری علاج نہیں انہوں نے زور دیا کہ پی ڈی ایم اے سے گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران راشن کی خریداری اور فراہمی کی تفصیلات نکالی جائے تو بھی صورتحال سامنے آجائے گی ۔

پھر امدادی سامان کی خریداری اور ترسیل پر جو خرچہ آتا ہے اگر یہی رقم متاثرین کو دی جائے تو وہ تین گنازیادہ راشن خرید سکتے ہیں صوبائی وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ ہم اپوزیشن کوا عتماد میں لے کر وفاق کے پاس جا کر صحیح اعداوشمار کے ساتھ صوبے کی بہتر نمائندگی کرتے ہوئے اچھا پیکج لائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کا اپنا ایک طریقہ کار ہے جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں پر امدادی سامان بھیجاجاتا ہے اور اب تک پی ڈی ایم اے کے لئے جو امدادی سامان خریدا گیا ہے وہ سابق دور حکومت میں خریدا گیا ہم نے اب تک کوئی خریداری نہیں کی ۔

بلوچستان کے اضلاع میں نیوٹریشن پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے ہم اپوزیشن کے ساتھ مل کر مسئلے کے مستقل حل کو یقینی بنائیں گے ہم سمجھتے ہیں کہ امدادی سامان کی فراہمی مسئلے کا مستقل حل نہیں یہ فوری ریلیف ہے صورتحال کوجلدبہتر بنائیں گے۔ 

صوبائی مشیر ملک نعیم بازئی نے کہا کہ حکومت کو آئے ہوئے ابھی چند مہینے ہی ہوئے ہیں ہم سے حساب لینے والے بتائیں کہ انہوں نے چالیس سال اقتدار میں رہتے ہوئے کیا کیا ۔

جمعیت علماء اسلام کے یونس عزیز زہری نے کہا کہ ہمارے اضلاع میں غیر منتخب افراد کے ذریعے مداخلت کی جارہی ہے ماضی کی طرح ایک بار پھر تھانے اور چیک پوسٹ بھتہ خوری کرنے والوں کی سرپرستی کی جارہی ہے انہی لوگوں کے کہنے پر اعلیٰ افسران کے تبادلے ہورہے ہیں یہ سلسلہ ختم نہیں کیا گیا تو ہم سخت احتجاج کریں گے ۔

صوبائی وزیر داخلہ سلیم کھوسہ نے کہا کہ یہ بات ان کے علم میں اب لائی جارہی معزز رکن تحریری طور پر آگاہ کریں سخت کارروائی کریں گے۔اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے اپوزیشن جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا ان پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اپوزیشن لیڈر منتخب کیا ۔

وزیراعلیٰ اور حکومتی اراکین کا بھی شکریہ اداکرتا ہوں کہ جنہوں نے میڈیا کے ذریعے مبارکباد دی میری گزارش ہوگی کہ اپوزیشن کاکام حکومت کے معاملات کو درست اور صوبے کے مسائل کی نشاندہی کرنا ہے حکومتی ارکان کی جانب سے اپوزیشن کی بلا جواز مخالفت اور بحث برائے بحث سے گریز کیا جائے آج یہاں پر اپوزیشن کی جانب سے جتنے مسائل کی نشاندہی کی گئی وہ تمام درست اور اہمیت کے حامل ہیں ۔

اگر اختر لانگو اور احمد نواز لانگو نے کیوڈی اے کی گورننگ باڈی کی بات کی ثناء بلوچ نے قحط اور خشک سالی کامسئلہ اٹھایا تو یہ صوبے کے اہم مسائل ہیں وقفہ سوالات میں جوابات نہ ملنے یا تاخیر سے ملنے کے مسئلے پر بھی اپوزیشن کا موقف درست تھا حمل کلمتی نے گوادر میں پینے کے پانی اور ماہی گیروں کے احتجاج پر بات کی تو اس پر بھی اعتراض کی کوئی بات نہیں ۔

اپوزیشن کی جانب سے کوئٹہ میں پینے کے پانی کا مسئلہ بھی اہم ہے مگر حکومتی ارکان اور وزراء نے مثبت انداز میں جواب دینے کی بجائے اپوزیشن کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کی جو درست اقدام نہیں امید ہے کہ مستقبل میں اس سے گریز کیا جائے گا۔ 

اس موقع پر ڈپٹی سپیکر نے ایوان میں صوبے میں باران رحمت کے لئے دعا کرائی ۔ اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے باران رحمت کے لئے دعا کرائی ۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے ملک سکندر خان ایڈووکیٹ کو اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک سینئرپارلیمنٹیرین کی حیثیت سے ایوان کو ساتھ لے کر چلیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو وجود میں آئے تین سے چار مہینے ہوئے ہیں امن وامان کا مسئلہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے اس پر حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں بلوچستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں امن وامان سمیت دیگر مسائل کا ہمیں سامنا ہے لوگوں کی نظریں اس سرزمین پر لگی ہوئی ہیں ایسے میں ہمیں خود کودرپیش مشکلات اور تکالیف سے نجات کے لئے متحد ہو کر آگے بڑھنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مذاکرات کی پیشرفت کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں پرامن افغانستان کے بغیر خطے میں امن وامان کا ہمارا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا انہوں نے کہا کہ رشیا ء افغانستان اور اس خطے میں لڑی جانے والی جنگ کا خود کو بادشاہ سمجھ بیٹھا ہے ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک کی مداخلت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہمارے عوام کو درپیش مسائل اور معاملات کے حل کی کے لئے ہمیں مل بیٹھ کر کوششیں کرنی چاہئیں ۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہرسے ڈاکٹر کا اغواء کا یقیناًقابل مذمت عمل ہے حکومت مغوی ڈاکٹر کی بازیابی کے لئے اقدامات اٹھاتے ہوئے خود کو حکومت اور ریاست سے بالا تر سمجھنے والوں کی بیخ کنی کرنی چاہئے ۔جے یوآئی کے زابد ریکی نے ڈپٹی کمشنر واشک کی تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واشک بلوچستان کے ترقیافتہ اضلاع سے ترقی میں پچاس سال پیچھے رہ گیا ہے ۔

گزشتہ تیس سالوں سے ڈی ایچ او واشک وہاں تعینات ہے حالانکہ قانون ہے کہ ہر تین سال بعد افسران کا تبادلہ ضروری ہے ۔انہوں نے کہا اگر حکومت مجھے عوامی نمائندہ نہیں سمجھتی تو میں واشک کے ایک رہائشی کی حیثیت سے اس ایوان میں اپنی فریاد وزیراعلیٰ کو سناتے ہوئے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ایک دن کے لئے میرے ساتھ میرے حلقہ انتخاب کا دورہ کریں تاکہ انہیں حقائق کاپتہ چل سکے ۔ بعدازاں بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ 21دسمبر سہ پہرتین بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔