|

وقتِ اشاعت :   March 26 – 2019

بلوچستان یونیورسٹی کے اندر داخلے سے قبل شناخت کرانا لازمی ہے چند سال قبل ایسا نہیں تھا۔ داخلے کا وحدا ذریعہ مین گیٹ ہی ہوا کرتا تھا یہ گزرگاہ گاڑی اور پیدل چلنے والے دونوں کے لیے ہوا کرتا تھا جہاں سے بلا روک ٹوک سب داخل ہوتے تھے۔ یونیورسسٹی کے سبزہ زار پر بیٹھے طلبا کے درمیان چل رہی ڈسکشن اور موضوعات پر اسٹڈی سرکلز طلبا تنظیموں کے زندہ ہونے کی نوید سناتی تھی۔ یونیورسٹی کی درختیں طلباء تنظیموں کے جھنڈ سے مزین ہوا کرتے تھے۔ اسٹوڈنٹ داخلے کا مسئلہ ہو یا کہ ہاسٹل میں رہائش کا سیٹ اپ، کمان طلبا تنظیموں کے ہاتھ ہوا کرتا تھا۔ 

اب منظرنامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ یونیورسٹی کے اندر داخلے کے لییایک الگ گزرگاہ بنا ئی گئی ہے۔ اندر داخل ہونے والوں سے شناخت نامہ لے کرتب انہیں اندر جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کا وہ ایریا جہاں پہلے نوجوانوں کے اسٹڈی سرکل ہوا کرتے تھے اب وہاں خاموشی ہے ۔ چھولے چاٹ اور چائے کے جو کینٹین ہوا کرتے تھے اب فقط ان کا معدوم ہوتا ہوا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ کینٹین کے آس پاس درختوں کو دیکھ کر یہی گمان ہوتا ہے کہ جہاں کبھی ان کے سائے مباحث کو فروغ دیا کرتے تھے مکینوں کے دید کو ترستے ہوئے درختوں پر اب فقط لٹکتے ہوئے بینرز ہی نظر آتے ہیں۔ 

زبانوں کا کیمپس پہلے یونیورسٹی کی مین بلڈنگ کے اندر ہوا کرتا تھا اب الگ کیا جا چکا ہے۔ یونیورسٹی کتاب گھر تک پہنچتے پہنچتے منظرنامہ بدل جاتا ہے۔ بک پوائنٹ سے آگے سیکورٹی فورسز کا مجمع نظر آتا ہے۔ جو وقتاً فوقتاً یونیورسٹی کے احاطے میں گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیکورٹی فورسز کی نقل و حرکت کو دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ یونیورسٹی کو آخر خطرہ کس سے ہے؟اگر اتنا ہی خطرہ ہے تو کیوں نہ سیکورٹی کا مضمون شاملِ ہذا کیا جائے۔

یونیورسٹی ایسا تو کبھی نہیں تھا آخر یونیورسٹی کو ہو کیا گیا ہے ہم اسی پر اظہار افسوس کر رہے تھے کہ سوشل میڈیا پہ چلنے والی ایک نوٹیفکیشن سے واسطہ پڑا۔ ڈائریکٹر کالجز بلوچستان کی جانب سے جاری کردہ ہدایت نامہ یا حکم نامہ کے مطابق کالجز کی سطح پر ہر قسم کی سیاسی اور تنظیمی سرگرمیوں پر پابندی ہوگی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بیڈا ایکٹ کے تحت قانونی کاروائی کی جائے گی۔ یہ بیڈا ایکٹ کیا بھلا ہے۔ 

نوٹیفکیشن پر طلبا تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ردعمل کے طور مذمتی بیانات تو سامنے آئے تاہم اس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ سامنے نہیں آیا۔ ان اقدامات سے اداروں کے تعلیمی ماحول اور طلبا ء کی سرگرمیوں پر کس قسم کا اثر پڑے گا؟ یہی سوال میں نے بلوچستان یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے استاد پروفیسر ظاہر مینگل سے کیا۔ ’’پاکستان کا آئین بھی بولنے اور لکھنے کی اجازت دیتا ہے۔اداروں کے اندر طلبا کو یہی پڑھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق جان لیں۔ حقوق کے لیے جمہوری طریقے سے جدوجہد کریں۔اب جب کہ ان سے لکھنے اور بولنے کی آزادی چھین لی جائے گی اور جمہوری طریقے سے جدوجہد کی راہوں کو مسدود کیا جائے گاتو ان کے لیے اظہارِ رائے کا دوسرا کون سا راستہ بچتا ہے۔ ان اقدامات کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں جن کے منفی اثرات آگے جاکر سوسائٹی پر پڑیں گے‘‘۔ 

بعض حلقے اسے بلوچستان پروفیسر اینڈ لیکچرر ایسوسی ایشن کی جانب سے ارمان لونی کے لیے تعزیتی ریفرنسز کے انعقاد کا نتیجہ گردانتے ہیں ۔کہیں حالیہ پابندی اس عمل کا ردعمل تو نہیں؟ یہی سوال میں نے ایسوسی ایشن کے صوبائی نائب صدرعین الدین کبزئی سے کیا تو ان کا کہنا تھا ’’ ہم اب تک پانچ تعزیتی ریفرنس منعقدکر چکے ہیں اگر انہوں نے اپنا ردعمل دکھانا ہوتا تو وہ پہلے تعزیتی ریفرنس کے بعد ہی دکھاتے ۔

اسی نوٹیفکیشن کے حوالے سے ہم ڈائریکٹر کالجز سے ملے ہیں نوٹیفکیشن سے متعلق وہ خود بھی کلیئر نہیں ہیں کہ اس نوٹیفکیشن کا اطلاق کن تنظیموں پر ہوگا کن پر نہیں‘‘۔ تو یہ نوٹیفکیشن کس کے حکم سے جاری ہوا ہے؟ ’’ سیکرٹری کے۔ ہم اس حوالے سے سیکرٹری سے ملیں گے‘‘۔ارمان لونی کاتعلق سنجاوی سے تھا شعبہ درس و تدریس سے منسلک رہنے کے علاوہ ان کا شمار پی ٹی ایم کے بانی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ گزشتہ ماہ مبینہ پولیس مقابلے میں ان کی ہلاکت ہوئی تھی۔ شہادت کے بعد بلوچستان کے لیکچرر اور پروفیسرز کی جانب سے حکومت سے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

کالجز کے اندر کس قسم کی سیاسی سرگرمیاں ہوتی ہیں کہ متعلقہ سربراہاں کو اس پر پابندی لگانے کا خیال آیا؟ یہی سوال میں نے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چئیرمین نواب بلوچ سے کیا تو ان کا کہنا تھا ’’2011کے بعد سے طلباء سیاست جمود کا شکار ہے۔ سیاسی سرگرمیاں کسی بھی ادارے کے اندر نظر نہیں آتیں سوائے چند ایک تعلیمی سرگرمیاں منعقد کرانے کے ، پابندیاں سمجھ سے بالاتر ہیں‘‘۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں رکھتی اور نہ ہی کسی سیاسی ونگ سے اس کا تعلق ہے ہم ترقی پسند سوچ رکھتے ہیں۔ شعور پھیلانے کا کام کرتے ہیں اسٹڈی سرکلز منعقد کراتے ہیں اور کتب میلے لگاتے ہیں۔ اگر ان سرگرمیوں پر پابندی لگائی جاتی ہے تو وہ جو سیکھنے کا عمل ہے اس سے طلبا رہ جائیں گے۔ عمران بلوچ ایڈوکیٹ 2009سے 2014تک بی ایس او کے چیرمین رہے۔ 

ہم نے ان سے پوچھا کہ موجودہ طلبا سیاست اور آپ کے دور کی طلبا سیاست میں کتنا فرق ہے ’’ اُس دور میں ایسے احکامات کے خلاف پریس کانفرنسزاور احتجاجی مظاہرے ہوتے ،یوم سیاہ مناتے ۔ موجودہ سیٹ اپ میں طلباء سیاست میں وہ کردار نظر نہیں آتا‘‘۔ وجہ کیا ہے اور ذمہ دار کون ہے؟ ایک خوف ہے۔ طلبا سیاست خوف کی نذر ہو گئی ہے اور اس میں وہ سیاسی سوچ نہیں جو کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا پارٹیوں کی خاموشی اپنی جگہ۔

پابندیاں بذات خود اپنے ساتھ بے شمار مصائب لاتی ہیں۔ ہم نے ماضی میں بھی کیا کیا۔ مکالمے کی راہوں میں بند باندھے، مطالبات کو سنی ان سنی کرکے وہاں طاقت کا ستعمال کیا۔ نتیجہ کیا ہوا جو سنانا چاہتے تھے وہ خاموش ہوئے یا پھر مزاحمت پر اتر آئے۔ انسان کی فطرت ہی کچھ اس طرح کی ہے کہ آپ اس پر جتنی پابندیاں لگائیں گی وہ اتنا ہی ابھر کر سامنے آئے گا۔ آدم و حوا کی اولاد ہے۔ انہیں جس خوراک کو ہاتھ نہ لگانے کا حکم صادر ہوا تھا انہوں نے وہ خوراک چکھ کر جنت سے نکلنے کی راہوں کا تعین کیا۔

اداروں کے اندر پہلے سے خاموشی ہے اب مزید اسے پابندِ سلاسل رکھنا ہے تو کیوں نہ داخلے کے لیے گونگا ، بہرہ اور اندھا پن لازمی قرار دیا جائے۔ میرے خیال میں ماضی میں جو تجربات ہو چکے ہیں انہیں مزید دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ آپ نوجوانوں کو بولنے دیں ،انہیں سوال کرنے دیں اگر ان سے بولنے، لکھنے اور سوال کرنے کی آزادی چھین لیں گے تو بدلے میں کونسا پروڈکٹ تیار کرنے کی امید کریں گے یہی نا بانجھ پن کا پروڈکٹ۔

One Response to “’’طلبا سیاست‘‘ سے خوفزدہ کیوں؟”

Comments are closed.