|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2019

بلوچستان کی تقدیر ایسی ہے یا اس کے ساتھ ایسا خونی کھیل کھیلا جاتا ہے کہ بلوچستان ہمیشہ بری خبروں کی زد میں رہتا ہے۔ کسی دن کوئی اچھی خبر مل جائے تو اگلے دن ہی کوئی بری خبر اچھی خبر کو کھا جاتا ہے اس طرح ایک بار پھر مایوسی کے بادل چھا جاتے ہیں۔ بلوچستان میں ایک طویل خشک سالی کے بعد جب بادلوں نے برسانا شروع کیا تو برستے ہی چلے گئے۔ بلوچستان والوں نے جتنا مانگا تھا ان کی توقعات سے سو گنا زیادہ عطا ہوا۔ 

جب سو گنا زیادہ عطا ہوتا ہے تو نہ ہی انسان ہضم کر پاتا اور نہ ہی زمین کو راس آتی ہے، سو پانی سیلابی شکل اختیار کر گیااور سیلابی پانی آبادی کوچاروں شانوں چت کرتا چلا گیا۔ لوگ سائے سے محروم ہوئے۔ فصلات اور زمینیں سیلاب کی نذر ہو گئیں۔ پھر وہی نوحے وہی دکھ بھری داستانیں۔

بلوچستان کے لوگوں نے وہ زخم کھائے ہیں کہ فصلوں کا نقصان، زرخیز زمینوں کی تباہی،سیلاب کی زد میں آنے والے مال مویشی کا ضیاع کم ہی لگا۔تباہ حالی کی یہ خبریں صرف سوشل میڈیا میں ہی گردش کرتی رہیں مین اسٹریم میڈیا لاعلم ہی رہا۔۔ سو اس سے بھلا اور کیا امید کی جا سکتی ہے۔ 12اپریل 2019کو ہزار گنجی سبزی منڈی خودکش حملے میں 21افراد جاں بحق ہوئے۔ حملے کا نشانہ ہزارہ برادری تھی۔ سو ہزارہ برادری ایک بار پھر سے سراپا احتجاج بن گئی۔

ان پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا وہ گزشتہ ایک دہائی سے مختلف واقعات کا نشانہ بنتے اور لاشیں اٹھاتے چلے آرہے ہیں۔ نوحہ کناں ہیں ہر بار جان کے تحفظ کی یقین دہانی ہوتی ہے پھر واقعہ ہوتا ہے پھر یہ لوگ سڑکوں پہ نکل آتے ہیں۔ نہ جانے ایسے کتنے خواب تھے جو منوں مٹی تلے دب گئے۔ اب وہاں خواتین ہیں اور نوحہ کنان ہیں چہروں پر ہزاروں تکلیفیں سجائے پر زبان پہ تالے لگائے ہوئے ہیں۔ 

16اپریل کو مستونگ میں وین اور ٹرالر کے درمیان تصادم میں 14افراد جاں بحق جبکہ 6 افراد زخمی ہوئے۔ مرنے والے تمام افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔ اب اس تباہی کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے۔ بلوچستان کی سڑکیں خونی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ لوگ قیمتی جانوں سے جا رہے ہیں۔ 

دہشتگردی کے واقعات میں اتنے لوگ نہیں مرتے جتنی سڑک حادثات کا شکار ہو کر جان سے جاتے ہیں۔ کہیں گاڑیوں کے درمیان تصادم تو کہیں زندہ جل جانے کی کہانیاں نہ جانے ایسی کتنی کہانیاں یہ شاہراہیں رقم کر چکی ہیں۔ اب دہشتگردکسے قرار دیا جائے۔ سڑکوں کو، حکومت کو یا پبلک ٹرانسپورٹر کو۔ مقدمہ کس پر درج کیا جائے۔ 

بلوچستان والے چیختے چلاتے ہیں کہ بلوچستان کی مصروف ترین شاہراہوں کو دو رویہ کیا جائے مگر کون سنے۔ حکومت کی کان پر جوں نہیں رینگتی۔ آخر بلوچستان جو ہے۔ جانوں کی ضیاع سے کیا جائے گا۔ سڑکیں تو معدنیات کی خرید و فرخت اور مارکیٹ تک رسائی کے لیے بنی ہوئی ہیں سو ان کی بحفاظت مارکیٹ تک رسائی آسان ہو اور بس۔ 18اپریل کو اورماڑہ کے مقام پر 14افراد کو بس سے اتار کر قتل کیا گیا ۔ قتل کیے جانے والے بیشتر افراد کا تعلق پاکستانی فورسز سے بتایا گیا۔ واقعے کی ذمہ داری بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے اتحاد ’’ براس‘‘ نے قبول کی۔ واقعہ سیکورٹی لیپس کا نتیجہ تھا۔ خون ریزی کا یہ واقعہ بلوچستان میں ہی پیش آیا۔ پھر سوال اٹھنے لگے کہ خونریزی بلوچستان کا ہی رخ کیوں کرتی ہے۔ 

جہاں بلوچستان پے درپے واقعات کی زد میں رہا واقعات نے نے ہر عام و خاص کو بری طرح جھنجوڑ کر رکھ دیا دل و دماغ میں یہی واقعات گھومتے رہے۔ ناامیدی کی فضا میں امید کا دیا کون جلائے۔ دل کو تشفی دینے کے لیے ہم ایک اچھی خبر کی تلاش میں نکلے سو چلتے چلتے آپ کو اس کی کہانی سناتے ہیں۔یہ کہانی چند ایسے نوجوانوں کی ہے جنہیں سریاب کے علاقے لوڑکاریز میں لائبریری کا خیال آیا۔ چار دوستوں نے مل کر لائبریری کا آغاز ایک بیٹھک میں کیا۔

’’ میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ آتے ہی گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘

کے مصداق بیٹھک ایک مکمل لائبریری کی شکل اختیار کر گئی۔ جگہ کم پڑ گیا تو علاقائی نمائندوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ پانچ سالوں سے تیار ایک ہسپتال بلڈنگ(شہید بے نظیر بھٹو ہسپتال‘‘ کا خیال آیا جو حکومتی بے حسی کا شکار ہوکر ہسپتال نہ بن سکا۔ نوجوان التجا علی محمد جتک کے پاس لے کر گئے۔نوجوانوں کی کوششیں رنگ لائیں اور ہسپتال بن گیا لائبریری۔

وہ بلڈنگ جو ویران ہوا کرتا تھا نوجوانوں نے لائبریری کی شکل دے کر اسے آباد کیا۔لوڑ کاریز اور ملحقہ علاقوں سے نوجوان مطالعے کے لیے آتے ہیں بیٹھ کر تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ کمرے کے اندر محدود نشستیں ہیں کرسیاں اور ٹیبل انہیں مخیر حضرات نے عطیہ کیے ہیں۔ جبکہ کتابیں مختلف اداروں سے موصول ہوئی ہیں۔ 

بسم اللہ بلوچ ، عبدالشکور بنگلزئی اور دیگر ساتھیوں کی کوششوں سے علاقے میں مطالعاتی سرگرمیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے وہ کہتے ہیں نا کہ اگر کوشش کیا جائے تو کچھ بھی ممکن ہے اور نہ کرنے والوں کے لیے سو بہانے۔ بسم اللہ اور اس کے ساتھیوں کی کوششیں رنگ لے آئیں۔ لائبریری کی سوشل میڈیا پر پیج بن جانے اور سرگرمیوں کی پوسٹنگ سے لوگ ان سے رابطہ کر رہے ہیں۔

گزشتہ روز جب ہم نے لائبریری کا دورہ کیا تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ لائبریری برائے نام نہیں۔ نوجوان آتے ہیں پڑھتے ہیں۔ بسم اللہ کا کہنا ہے کہ نشستیں محدود ہیں ان کے پاس کرسی اور ٹیبل کم پڑ گئے ہیں نشست نہ ملنے پراکثر نوجوان واپس چلے جاتے ہیں۔ لائبریری کے اندر تین الماریاں ہیں اور الماریوں میں کتابیں۔ 

عابد میر نے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی کتابیں ان کے حوالے کیں۔ جبکہ نجیب اللہ سرپرہ اپنی ذاتی خرچے سے سبط حسن اور علی عباس جلالپوری کی تمام کتابوں کا سیٹ لے آئے۔ عابد میر کا کہنا ہے کہ لائبریری کی خبر سن کر اسلام آباد، بہاولپور، لاہور، کراچی دیگر علاقوں سے کتاب دوست حضرات نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ بہت سوں نے لائبریری کی کرسی، ٹیبل اور الماریوں کے لیے امدادی رقوم کی صورت میں ارسال کی ہے۔

نوجوانوں کا کہنا ہے کہ لائبریری میں ماہانہ اسٹڈی سرکل کا سلسلہ شروع کیا جائے گا ۔ جبکہ حاضرین کی جانب سے یہ رائے بھی سامنے آئی کہ علم کے حصول کے لیے خواتین پیچھے نہ رہیں لائبریری میں ایک دن اُن کے لیے بھی رکھا جائے ۔ بھلا ہو نوجوانوں کا جن کی کوششوں سے گمنام ہسپتال بھی نمایاں ہوا۔نوجوانوں کا کہنا ہے جونہی یہ ہسپتال فعال ہوجائے وہ ہسپتال چھوڑ دیں گے۔۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہسپتال کو فعال کون کرے اور لائبریری کا انتظام کون کرے۔ 

علاقے کے عوام صحت کی سہولیات چاہتے ہیں جبکہ نوجوان تعلیمی ادارے اور لائبریریاں۔۔ اب مایوسی کی ایسی فضا میں امید کی کرن پیدا ہوجائے تو کرن کو بجھنے نہیں دینا چاہیے سو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف ہسپتال کو فعال کرے بلکہ نوجوانوں کی علمی و ادبی ذوق کو دیکھتے ہوئے لائبریری بھی قائم کرے۔ 

ابھی میں یہ مضمون لکھ ہی رہا تھا خبر آئی کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے وفاق کی جانب سے فنڈز کٹوتی کی بنا پر آئندہ تعلیمی نظام میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں اسکالرشپ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نظریں دھندلانے لگیں، دھندلاہٹ میں وہ نوجوان نظر آنے لگے جو غربت کو مات دیتے ہوئے اسکالرشپ لے کر مختلف جامعات میں حصولِ علم میں مصروف ہیں۔ 

کہیں یہ خبر میری سکون چھین کر نہ لے جائے مانندِ سرکار خیالات اور وسوسوں سے ذہن کو آزاد کردیا۔۔ سو ذہن کو تسکین دینے کے لیے اک تلاش اور سہی۔ہم ایک اور اچھی خبر کی تلاش میں لگ گئے۔

Trackbacks/Pingbacks

  1.  My Homepage

Comments are closed.