|

وقتِ اشاعت :   May 4 – 2019

10ہزار نفوس پر مشتمل ٹکری ولیج ماڑی پور کراچی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ یہ بلوچ آبادی پر مشتمل علاقہ ہے۔ ذریعہ معاش کا انحصار ماہی گیری یا کمپنیوں کی ملازمت ہے۔ علاقے میں پانی کا بحران ہے۔صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔ تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں شرحِ ناخواندگی بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کراچی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی یہ بلوچستان کا دیہی علاقہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں کے نوجوان تعلیمی اداروں تک عدم رسائی کے سبب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور مجبوراً اپنے آباؤاجداد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ماہی گیری کا شعبہ اختیار کرتے ہیں یا کمپنیوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔علاقے سے آج تک نہ کوئی ڈاکٹر پیدا ہوا، نہ کوئی وکیل یا استاد۔

علاقے کی پسماندگی اور ناخواندگی کو دیکھتے ہوئے چند نوجوانوں کو علاقے میں تعلیمی ادارے کا خیال آیا۔ یوں 2013کو آغاز ہوا ”ٹکری ایجوکیشن سینٹر“ کا۔ سینٹر کے قیام سے تعلیمی فضا قائم ہوئی وہ لوگ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بیگانگی کا شکار تھے سینٹر کے قیام نے ان میں ایک نئی سوچ پیدا کی حصولِ علم پروان چڑھنے لگا ٹکری ایجوکیشن سینٹر میں اس وقت 300کے آس پاس بچے زیر تعلیم ہیں۔ جنہیں تین شفٹوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ پہلی شفٹ 2سے چار بجے لگتی ہے جس میں لڑکوں کو تعلیم دی جاتی ہے دوسری شفٹ لڑکیوں کی ہوتی ہے جس کا دورانیہ 4سے 7بجے ہے تیسری شفٹ رات کو لگتی ہے اس شفٹ میں ان کو پڑھایا جاتا ہے جو دونوں شفٹوں میں بوجہ مصروفیت شریک نہیں ہوپاتے۔

علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کا رجحان پایا نہیں جاتا تھا۔ سینٹر کے قیام سے اب بچیاں بھی حصولِ تعلیم میں آگے آرہی ہیں ٹکری ایجوکیشن سینٹر میں اس وقت 100سے زائد بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ جبکہ 12بچیاں ایسی ہیں جو کراچی کے مختلف کالجز میں زیر تعلیم ہیں۔ غموار بلوچ علاقے سے پہلی لڑکی ہے جو اِس وقت کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔غموار کہتی ہے کہ جب انہوں نے میٹرک پاس کیا تو گھر والے مزید تعلیم کے لیے راضی نہیں تھے۔ طویل جدوجہد اور سینٹر والوں کی کوششوں سے اس کے گھر والے گاؤں سے باہر حصولِ تعلیم کے لیے راضی ہوئے۔”گھر والوں نے کہا کہ اکیلی گاؤں سے باہر کیسے جاؤ گی۔ لوگ کیا کہیں گے؟ لیکن میں نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ یونیورسٹی کا دروازہ ضرور کھٹکھٹاؤں گی“۔ غموار کے مطابق علاقے میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگ بچیوں کو تعلیم نہیں دلواتے اور ان کی جلدی شادیاں کی جاتی تھیں۔ اب اسے دیکھتے ہوئے لوگ اپنی بچیوں کو علاقے سے باہر تعلیم دلوانے لگے ہیں۔

غموار اس وقت پولٹیکل سائنس کی تھرڈ ایئر کی طالبہ ہے گھر سے یونیورسٹی کا فاصلہ وہ بسوں کے ذریعے طے کرتی ہے جس کے لیے انہیں یونیورسٹی تک پہنچنے کے لیے تین بسوں کو تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ ٹکری ولیج سے گل بائی، گل بائی سے نیپا اور نیپا سے یونیورسٹی۔ سفری دورانیہ تین گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے مگر حصولِ علم کے آگے تین گھنٹے کا سفر گران نہیں گزرتا۔ یہی نہیں بلکہ یونیورسٹی سے واپسی کے بعد وہ ٹکری ایجوکیشن سینٹر ماڑی پور کی بچیوں کے لیے اپنا وقت وقف کرتی ہیں۔

پندرہ افراد رضاکارانہ طور پر پڑھاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو حصولِ علم کے لیے صبح اسکول اور کالجوں جاتے ہیں اور شام کو اپنا علم بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔ سب کا مقصد ٹکری ولیج کو باعلم اور باشعور بنانا ہے وہ بچے جو قلم کتاب اور کاپی کے اخراجات برداشت نہیں کرتے ان کے اخراجات پورا کرنے کے لیے محلے میں چندہ کیا جاتا ہے۔ تاکہ کوئی بچہ حصولِ علم سے محروم نہ رہ جائے۔ چار کمروں پر مشتمل مکان ایک شخص نے گزشتہ کئی سالوں سے ٹکری ایجوکیشن سینٹرکے لیے وقف کر رکھا تھا۔ کئی سالوں کی محنت کے بعد سینٹر اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ مگر ایک مسئلہ آڑے آگیا کہ مالک مکان کو پیسوں کی ضرورت پیش آئی ہے اب وہ اپنا مکان بیچنا چاہ رہاہے اور انہوں نے نوٹس جاری کیا ہے کہ یا تو مکان خالی کردیں یا 15لاکھ ادا کرکے مکان لے لیں۔

غریبوں بستی والوں کی بساط نہیں کہ وہ اتنی رقم ادا کریں۔ ٹکری ایجوکیشن سینٹرز کے نوجوانوں نے اپنا ایک ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر جاری کیا ہے جس میں انہوں نے لوگوں سے امداد کی اپیل کی ہے۔ویڈیو دیکھ کر بچے اور بچیوں کی تکلیف کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ان کی آنکھوں میں حسرت دیکھی جا سکتی ہے یہ بچے پڑھنا چاہتے ہیں آگے جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ماہی گیر نہیں بننا ہے یہ وکیل بننا چاہتے ہیں اچھا استاد بننا چاہتے ہیں ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں ماڑل ٹکری ولیج کا خواب آنکھوں میں سجائے اپنی ان خوابوں کی تکمیل چاہتے ہیں مگر اس وقت سوال ہے ٹکری ایجوکیشن سینٹر کو بچانے کا۔

بلوچ آبادی ہے۔ کراچی میں رہتے ہوئے بھی یہ اپنی بولی بولتے ہیں۔ اپنوں میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ سانس سندھ میں لیتے ہیں لیکن ان کے دل بلوچستان والوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ سو سوال جتنا سندھ حکومت سے ہے اتنا ہی بلوچستان والوں سے۔ سو بلوچستان والوں کو آگے آنا ہوگا۔ وہ قوم پرست جماعتیں جو الیکشن مہمات پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ بلوچ قوم پرستی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ٹکری ایجوکیشن سینٹر سوال لیے ان کے سامنے کھڑا ہے۔ نعروں اور سیاست سے زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پندرہ لاکھ روپے جھالاوان دینا چاہے یا مکران دینا اب دیکھنا ہے پہل کون کرتا ہے۔