|

وقتِ اشاعت :   October 15 – 2019

کوئٹہ : کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر غلام فاروق نے کہا ہے کہ کسٹم حکام حکومت کی پالیسی کے برعکس قانونی تجارت میں روڑے اٹکا رہے ہیں بلوچستان کے تاجر سالانہ 26ارب روپے ریونیو دیتے ہیں لیکن اس کے بدلے ہمیں قانونی تجارت سے روکا جارہا ہے، کسٹم کے اپیز مینٹ حکام نے سامان کو کلیئر کیا اور ریلیز آڈر بنوائے لیکن پریونیٹیو حکام نے سامان کو غیر قانونی قرار دیکر تحویل میں لے لیا ہے۔

جب تک کسٹم حکام اپنی پالیسی واضح نہیں کرتے ہیں ہم احتجاج ختم نہیں کریں گے، یہ بات انہوں پیر کو کوئٹہ چیمبر آف کامرس میں سینیٹر مرزا خان آفریدی، سینیٹر احمد خان خلجی، وزیراعلیٰ کے مشیر مٹھا خان کاکڑ کے ہمراہ پریس کانفر نس کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر چیمبر آف کامرس کے سنیئر نائب صدر بدرالدین کاکڑ، سابق صدور جمعہ خان بادیزئی،صمد موسیٰ خیل،چیمبر ممبران حاجی فوجان بڑیچ،صلاح الدین خلجی سمیت دیگر بھی موجود تھے، حاجی غلام فاروق نے کہا کہ کوئٹہ چیمبر نے ہمیشہ قانونی تجارت کو فروغ دیتے ہوئے قانونی کام کئے ہیں یہی وجہ سے کہ حکومت کو بلوچستان سے سالانہ 26ارب روپے تک ریونیو حاصل ہوتا ہے۔

لیکن کچھ عناصر قانونی تجارت کی حوصلہ شکنی پر مبنی اقدامات کر رہے ہیں کسٹم کے فیلڈ افسران حکومت کی پالیسی کے مخالف کام کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ تفتان پر ہمارے تین ٹرک جنہیں کسٹم اپریز منٹ نے کلیئر قرار دیا جس کے بعد ہم نے نیشنل بینک میں ڈیوٹی جمع کی اور ٹرک اپنی منز ل کی جانب روانہ ہوگئے لیکن نوشکی اور دالبندین میں کسٹم پر یوینٹیو نے ان ٹرکوں میں موجود سامان کو غیر قانونی قرار دیکر تحویل میں لے لیا۔

جس پر تاجروں نے احتجاجاًتفتان اور چمن بارڈر سے امپورٹ بند کردی ہے اسوقت ہماری 15سے 16سو گاڑیاں کھڑی ہیں اور جب تک کسٹم حکام اپنی پالیسیاں واضح نہیں کرتے ہم اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ کسٹم حکام یہ بات واضح کریں کہ انکی پالیسی کیا ہے اور ہمیں گارنٹی دیں کہ آئندہ اگر ہم نے اپنی گاڑی کلیئر کروائی ہے تواسے روکا نہیں جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال سے قانونی تجارت کا راستہ روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں چیمبر کی تجارت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے انہیں بے روزگار نہ کیا جائے ہم نے چیف کلیکٹر سے بھی ملاقات کی ہے اورانہوں نے اعتراف کیا ہے کہ آپریزمنٹ سے غلطی ہوئی ہے آپ کا مال ٹھیک نہیں تھایہ تمام غلطی کسٹم حکام کی ہے تو تاجر بیچ میں کیو ں پیس رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قوانین کے مطابق سریااسکریپ کی لمبائی 8.75فٹ ہوسکتی ہے جبکہ ہماری گاڑیو ں میں سریے کی لمبائی 7فٹ سے زیادہ نہیں ہے گڈانی میں بھی تین ماہ پہلے ایساہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جس پر عدالت نے تاجروں کے حق میں فیصلہ دیا تھا ہم چاہتے ہیں کہ کسٹم حکام عدالتی احکامات پر عمل کریں اورایک واضح پالیسی بنائیں تاکہ تاجر روزانہ کی مشکلات سے بچ سکیں۔

انہوں نے کہا کہ کسٹم حکام مشترکہ معائنہ ٹیم بھی بنائیں جو اس تمام معاملے کی تحقیقات بھی کرے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مرزاخان آفریدی نے کہا کہ سینٹ تمام صوبوں کی نمائندگی کرتا ہے ہم پاکستان کی تاجر برادری کے ہمراہ کھڑے ہیں اس حوالے سے چیئرمین ایف بی آر،کسٹم حکام اور دیگر سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں ہم نہیں چاہتے کہ جائز کاروبار میں کسی قسم کی رکاوٹ ہو اگر تاجروں کے مسائل حل کرنے کیلئے وزیراعظم سے بھی ملنا پڑے تو ہم جائیں گے۔

تاجر اسمگلنگ کی شرح کو صفر پر لانے کیلئے ہماری مدد کریں۔انہوں نے کہا کہ اگر تاجروں کو روزگار ملے گا تو اس سے ہزاروں اور لوگوں کو بھی روزگار کے مواقع فراہم ہونگے اس وقت ہزاروں گاڑیاں کھڑی ہیں جس کا نقصان عوام اور حکومت دونوں کو ہورہا ہے اس حوالے سے جو بھی کردار اداکرسکا وہ کروں گا۔