|

وقتِ اشاعت :   July 9 – 2020

آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں وہی ممالک ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خود کفیل ہیں۔امریکہ کو اس حوالے سے ہر دور میں برتری حاصل رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ امریکہ کا تیار کردہ جی پی ایس سسٹم تھا جو عشروں سے پوری دنیا میں کمیونیکیشن سے زراعت اور ما حولیات تک بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیگر شعبوں کی طرح نیویگیشن سسٹمز اور خلا ئی سرگرمیوں پر بھی امریکہ کی اجاراداری اب جلد ختم ہو نے والی ہے۔

چین نے جون کے آخری ہفتے میں اپنے ‘ بیدو نیوی گیشن سسٹم ” پراجیکٹ کا آخری سٹیلائٹ ” بیدو تھری ” خلا میں بھیج دیا ہے جس کے ساتھ ہی تقریباً دو عشروں پر مشتمل چین کا یہ عظیم منصوبہ تکمیل کو پہنچا۔ اس سے پہلے اس سسٹم کی پہنچ محض ایشیا ء پیسیفک تھی مگر اب اس کا دائرہ دنیا بھر تک پھیل چکا ہے۔ بنیا دی طور پر چین نے اس منصوبے کا آغاز اپنی افواج کی معاونت کے لئے کیا تھا کیونکہ انھیں امریکہ کے تیار کردہ جی پی ایس پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ مگر پھر وقت کے ساتھ اس سسٹم کا دوسرے شعبوں جیسے ٹرانسپورٹ، رسل و رسائل، زراعت وغیرہ میں استعمال شروع ہوا اور پھر چین مسلسل اس منصوبے میں توسیع کرتا گیا۔

چین نا صرف اب اس حوالے سے صرف خود کفیل ہے بلکہ آخری سٹیلائٹ کی لانچنگ کے بعد یہ سسٹم دنیا بھر میں استعمال کیا جاسکتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ نیویگیشن کی فول پروف سر وسز فراہم کی جائیں۔ اس لئے اس کا براہ ِ راست مقابلہ اور موازنہ امریکہ کے جی پی ایس، یورپی ممالک کے گلیلیو اور روس کے گلو ناز سسٹمز سے کیا جارہا ہے۔ جبکہ برطانیہ بھی کچھ عرصے قبل اپنے تیار کردہ نیوی گیشن سسٹم پر کام کے آغاز کا عندیہ دے چکا ہے۔ یہ نیوی گیشن سسٹم زمین کے 35 سٹیلائٹس کے ایک کانسٹی لیشن (ستاروں کا جھرمٹ) پر مشتمل ہے۔

جس میں زمین کے گرد درمیانے درجے کے مدار جسے لو ارتھ آربٹ کہا جاتا ہے میں 27 سٹیلائٹس، جیو سٹیشنری مدار میں 5 سٹیلائٹس جیو سائنسکرونس مدار 3 میں سٹیلائٹس پر شامل ہیں۔ واضح رہے کہ نیوی گیشن اور دنیا بھر میں مقامات اور پوزیشن میں مدد کرنے والے سٹیلائٹس زمین سے مختلف بلندیوں پر واقع مداروں میں بھیجے جاتے ہیں۔ ان میں جیو سٹیشنری مدار انتہائی بلندی پر خطِ استوا کے ساتھ ایک ہی میدان میں واقع ہوتے ہیں جبکہ جیو سائنکرونس مدار خطِ استوا سے باہر کی جانب ہوتے ہیں اور ان کا کوئی مخصوص جھکاؤ نہیں ہوتا۔

چین میں لوکیشن سروسز کے لئے یہ نظام پہلے ہی استعمال ہو رہا ہے اور حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں 70 فیصد سمارٹ فونز میں جی پی ایس کی جگہ بیدو سسٹم استعمال کیا جارہا ہے۔ بیدو نیوی گیشن سسٹم کا دائرہ کار پوری دنیا تک محیط ہوجانے کے بعد اسے مندرجہ ذیل مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے گا اورخوش آئند امر یہ ہے کہ بیدو کا فنکشنل رزلٹ جی پی ایس کی نسبت بہت بہتر ہے۔

1۔ چین کی سٹرٹیجک طاقت میں اضافہ:

بیدو نیوی گیشن اور گلوبل پو زیشن سسٹم سے چین کی علاقائی اور گلوبلی سٹرٹیجک اہمیت اور طاقت میں بے حد اضافہ ہو جائے گا۔یہ نظام چین کی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بھر پور معاونت کرے گا۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کی صورتحال کی وجہ سے چین کو سائبر وار کا سامنا ہے جس میں اس کا سب سے بڑا حریف امریکہ ہے جو چین کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ یہ سسٹم چین کو جدید ہتھیاروں کے ساتھ جنگوں میں بہتر صلاحیت کے ساتھ مقابلہ کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

چونکہ آج کل جنگوں میں ہتھیاروں سے زیادہ اہمیت تیز تر کمیونیکشن، انٹیلی جنس اور فول پروف حکمت عملی کو حاصل ہے لہذا چین پچھلے چند سالوں میں اپنی مسلح افواج کے جدید کمانڈ سسٹم کو بیدو کے ساتھ ضم کر چکا ہے جس کے بعد جدید ہتھیار جیسے راکٹ کو بعید ترین مقامات پر کسی غلطی کے بغیر نشانے پر لگانا اب ممکن ہے۔ اس حوالے سے چین پاکستان کے میزائل پروگرام کو بھی یہ سہولت فراہم کرنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ چین کے بعد پاکستان کی مسلح افواج کو یہ صلاحیت حاصل ہے کہ وہ اس سسٹم کو استعمال کر سکتی ہیں۔

2۔ سپیس سلک روڈ یا خلائی شاہراہِ ریشم

چین نے کچھ عرصے قبل اپنی تجارتی سرگرمیوں کو دنیا کے مزید مما لک تک وسیع کرنے کے لئے ایک بڑے تجارتی اور تعمیراتی منصوبے کا آغاز کیا تھا جسے بیجنگ بیلٹ کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے میں شامل 30 ممالک پہلے ہی بیدو نیوی گیشن سسٹم کی رینج میں آتے تھے جبکہ حالیہ سٹیلائٹ کی لانچنگ کے بعد تمام ممالک میں یہ سہولیات دستیاب ہوں گی۔ اس منصوبے کو سپیس سلک روڈ بھی کہا جاتا ہے جس میں پاکستان اور انڈونیشیا بھی شامل ہیں۔ ان ممالک میں جیسے جیسے کمیونیکشن، ٹرانسپو رٹ، ماحولیات تبدیلیوں اور زراعت میں بیدو کا استعمال بڑھے گا تو جی پی ایس پر دنیا کا انحصار از خود کم ہوتا چلا جائے گا۔

عین ممکن ہے کہ وہ ممالک جنھیں پہلے سے سیکیورٹی کے مسائل کا سامنا ہے اور خفیہ انٹیلی جنس کی وجہ سے ان کے امریکہ سے تعلقات اچھے نہیں ہیں وہ جلد ہی اپنے سسٹمز کو بیدو پر اپ ڈیٹ کر لیں۔ منصوبہ مکمل ہونے پر بیدویو کی لوکیشن سروس ایشیا پیسیفک میں 10 سینٹی میٹر تک درست ہیں جبکہ جی پی ایس میں یہ شرح 30 سینٹی میٹر تھی۔

3۔ نئے سمارٹ فونز میں بیدو کا استعمال

چین میں مقامی طور پر تیار کئے جا نے والے سمارٹ فونز جیسے ہیوائے، ون پلس وغیر ہ میں اب مقامات یا اپنی لوکیشن معلوم کرنے کے لئے جی پی ایس کے بجائے بیدو پوزیشننگ سسٹم استعمال کیا جارہا ہے۔ بیدو تھری اپنی تکمیل سے پہلے ہی اس قابل ہوچکا تھا کہ چین میں عام شہریوں کو 5 میٹر ریزولیوشن کے زمینی نقشے فراہم کرسکے۔ (یعنی ایسے ڈیجیٹل نقشے جن میں چھوٹے سے چھوٹا ایک نقطہ 5 میٹر لمبی اور 5 میٹر چوڑی کسی چیز کو ظاہر کرتا ہو)۔تاہم ایپ سمیت سمارٹ فون تیا رکرنے والی دنیا کی دیگر بڑی کمپنیوں نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی بڑا اعلان نہیں کیا ہے۔ لیکن امید ہے کہ کچھ نئے سٹیلائٹس کی لانچنگ کے بعد دوسری کمپنیاں بھی اسے تر جیح دیں گی کیونکہ جی پی ایس کی نسبت بیدو کی پوزیشن لوکیشن انتہائی درست ہے۔

4۔ ٹریفک مانیٹرنگ اور ڈیزاسٹر منجمنٹ میں معاونت:

بیدو پوزیشننگ سسٹم کو چین میں کافی عرصے سے ٹریفک کنٹرول اور ڈیزاسٹر منجمنٹ کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اب اس سسٹم کا دائرہ کار وسیع ہونے کے بعد دنیا بھر کے ممالک اسے ان مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر ڈیزاسٹر منجمنٹ میں اس کی اہمیت اور افادیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف خطے آئے روز غیر متوقع اور معمول سے ہٹ کر طوفانوں کی زد پر ہیں۔ جن کے بارے میں مقامی ڈیزاسٹر منجمنٹ کے ادارے یا محض محکمہ موسمیات کی جانب سے کوئی وارننگ نہیں جاری کی جاتی۔

جو یقینا پہلے سے موجود سسٹم کی ناکامی یا خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔ چونکہ بید وسسٹم میں غلطی کا مارجن بہت کم ہے لہذا ناصرف پہلے سے آفات کی وارننگ کا سسٹم بہتر ہوگا بلکہ بعد میں ایمرجنسی ریلیف آپریشن کو بھی بہتر بنا یا جاسکتا ہے۔ کسی بھی قدرتی آفت کے بعد ریلیف آپریشن کا سب سے پہلا نکتہ یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ علاقوں کا سٹیلائٹ سروے کیا جائے تاکہ موجودہ ہونے والی تباہی اور اس کے نتیجے میں آگے پیش آنے والی بد ترین صورتحال کو سامنے رکھ کر ریلیف آپریشن کی منصوبہ بندی کی جائے جس میں بنیادی حیثیت سٹیلائٹ سروے کی ہوتی ہے۔

اور اس حوالے سے امریکن جیولوجیکل سروے اور دیگر ادارے (جن کی اکثریتی امریکی یا یورپی ہے) ایسے ممالک کی تکنیکی مدد کرتے ہیں۔ بیدو تھری کو خلا میں بھیجنے کے بعد ڈیزاسٹر میٹی گیشن کے لئے اس کا استعمال بڑھے گا اور یقینا بہت سے ممالک اب بہتر ڈیزاسٹر منجمنٹ کی پالیسیاں اختیار کر سکیں گے۔