|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2020

1971میں حالات کے جبر اور ہماری سنگین غلطیوں سے لگنے والے تاریخ کے زخم بھرنے اور جذبہ انتقام کے سرد ہونے کے لیے پچاس سال کا عرصہ کافی ہے۔ اس عہد کی تاریخ لکھنے کے حوالے سے پاکستان اور بنگلا دیش کے اپنے اپنے مسائل ضرور ہیں لیکن یہ تسلیم کرنے کا وقت آچکا ہے کہ ہمیں اب آگے بڑھنا ہوگا۔ 80 کی دہائی اور بعدازاں 21ویں صدی کے آغاز پر ہمارے تعلقات بہتری کی راہ پر تھے۔ اس حوالے سے حمو دالرحمان کمیشن رپورٹ کی اشاعت ان قربتوں کو بڑھانے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہوسکتی تھی۔

بنگلا دیش میں 71کے ’’جنگی جرائم‘‘ کے مقدمات میں پاکستان کا ساتھ دینے والے متعدد افراد کو تختہ دار پر کھینچنے سے ہمارے بہتر ہوتے تعلقات میں زہر گھولا گیا۔ عوامی لیگ اور اس دور کے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو اپنے طرز عمل کا بھی ناقدانہ جائزہ لینا چاہیے۔ ڈاکٹر بٹینا روبوٹکا کے اشتراک سے لکھی گئی میری کتاب ‘Blood over different shades of green” نے پاکستان اور بنگلا دیش میں بعض لوگوں کو ناراض کیا، لیکن اس کا کیا جاسکتا ہے۔ تاہم فراموش کیے گئے حقائق کو بے رحمانہ غیر جانب داری سے بیان کرنے پر ہماری بہت زیادہ پذیرائی ہوئی۔ ایک پنجابی باپ اور بنگالی ماں کا بیٹا ہونے کے ناتے مجھ سے زیادہ کون غیر جانب دار ہوسکتا ہے؟

بنگلادیش میں محصور پاکستانیوں کی واپسی یا انہیں وہیں مستقل شہریت دینے سمیت کئی دیرینہ مسائل حل کرنے سے نہ صرف سیاسی مفاہمت میں مدد ملے گی بلکہ نصف صدی سے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے والے انسانوں کے زخموں پر مرہم بھی رکھا جاسکتا ہے۔ 2009میں منتخب ہونے کے بعد شیخ حسینہ واجد نے اپنے پہلے دورِ اقتدار کے بالکل برعکس ایسا رویہ اختیار کیا جس سے دونوں ممالک کے تعلقات کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ بھارت کے اُکسانے پر جنگی جرائم کے مقدمات کھولنے سے پاکستان اور بنگلا دیش کے مابین تلخیاں پیدا ہوئیں۔ جرمنی اور فرانس کے مابین مفاہمت ایک بڑی مثال ہے۔ آج یہ دونوں ممالک یورپ کی سرکردہ معاشی قوت کیوں ہیں؟ دونوں قومیں سو سال تک ایک دوسرے کی جانی دشمن رہیں۔

ا ن کی دشمنی سیاسی و سرحدی تنازعات کی بنیاد پر تھی اور ان کے مابین ہونے والی ہر جنگ یا تو زمین کے لیے ہوئی یا ’’قومی وقار‘ کی خاطر۔ ان جنگوں کے باعث دونوں ممالک کو بھاری معاشی اور جانی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ سب سے بڑھ کر اس دشمنی نے دونوں ممالک کومعاشی سمت میں بھٹکائے رکھا۔ 19ویں صدی میں شروع ہونے والی یہ کشیدگی 1945میں جرمنی کی شکست تک جاری رہی۔ جرمنی کی عسکری قوت کو قابو میں رکھنے کے لیے فرانس قابض طاقتوں میں شامل ہوگیا۔ لیکن حالات کی تبدیلی کے لیے انہوں نے پہلی عالمی جنگ کے بعد ہونے والے معاہدۂ ورسائلز سے جڑے بیانیے سے دوری اختیارکی۔

بعدازاں یہی معاہدہ دوسری عالمی جنگ کا باعث بنا۔ یہی وجہ تھی کہ 22جنوری 1963کو فرانس اور جرمنی کے مابین الیزے معاہدہ ہوا۔ دہائیوں کی دشمنی اور تنازعات کے بعد جرمنی اور فرانس نے مفاہمت کی جانب قدم بڑھائے اور یورپی سا لمیت کے لیے باہمی تعاون کی بنیاد ڈالی۔ دونوں ممالک نے اس معاہدے کو حکومتی سطح تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے ذریعے اپنے شہریوں کو بھی قریب لائے۔

ہمارے خطے کے لیے کوئی ایسا معاہدہ کیوں ممکن نہیں؟ جنرل پرویز مشرف 2002میں بنگلادیش کے قیام کے بعد وہاں دورہ کرنے والے پاکستان کے پہلے فوجی حکمران تھے۔ اس دورے میں انہوں نے ڈھاکا کی یادگار شہداء پر حاضری دی اور 1971میں ہونے والی’زیادتیوں‘‘ کو بدقسمتی اور قابل افسوس قرار دیا۔ بنگلا دیش کی جانب سے صدر مشرف کے بیان کا خیر مقدم کیا گیا۔ اس سے کچھ برس قبل جب میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کے ساتھ ڈھاکا گیا اور ہم سوار کی اسی یادگار پر حاضری دے رہے تھے۔

تو سوار کے انفنٹری ڈویژن کے جی او سی ہمارے نزدیک آئے اور مجھے سلیوٹ کرتے ہوئے کہا’’میں آپ کے یونٹ سے ہوں سر!‘‘ یہ ایک سلیوٹ بہت کچھ بتاتا ہے اور علامتی معنویت رکھتا ہے۔ 1971میں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے ساڑھے تین ڈویژن موجود تھے جن کے پاس پورا ساز و سامان بھی نہیں تھا۔ اس کے ساتھ رنگ پور میں ایک خستہ حال آرمر رجمنٹ تھی۔ آج وہاں بنگلادیشی انفنٹری کے نو ڈویژن (اور دسواں بریسل) میں ہیں۔ ان میں اکثر کے ساتھ درمیانے ٹینک رجمنٹ اور میری والدہ کے آبائی علاقے بوگرہ میں ایک آرمرڈ بریگیڈ ہے۔

اگر 1971میں بھارتی کمیونیکیشنز لائنز اور سرحد کے نزدیکی بڑے شہروں کے ساتھ پاکستان کے پاس یہ عسکری قوت ہوتی تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ جنگ کا نتیجہ کیا ہوتا؟ اب تو اس کا خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے لیکن بہر حال بنگلا دیش ORBATآج 2020میں ایک حقیقت ہے۔ بنگلا دیش کی معاشی کامیابیوں پر پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے۔ فوجی حکمرانوں ضیا الرحمن اور جنرل ارشاد کے دور میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوئی اور شیخ حسینہ نے گزشتہ ایک دہائی کے اندر معاشی ترقیوں کو غیر معمولی بلندیوں سے ہم کنار کیا۔

مارچ 1988میں اپنے ایک کالم میں یہ لکھا تھا ’’ ترقی پذیر معیشت کو ہمہ وقت تبدیلیاں قبول کرنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے اور خاص طور پر جب دنیا کے معاشی حالات مشکل فیصلوں کا تقاضا کرتے ہوں۔ اس لیے دو طرفہ تعلقات کی بنیاد تجارت پر ہونی چاہیے کہ یہی دیرینہ اور قابل عمل انتخاب ہے۔ اس کے مقابلے میں نظریاتی صف بندیاں دیرپا نہیں ہوتیں۔ مشترکہ مفادات ہی قوموں کو ایک جگہ جمع کرتے ہیں ، اس میں مذہب ، زبان و ثقافت کی اپنی اہمیت ہے لیکن رشتوں کی مضبوطی کا انحصار معیشت ہی پر ہے۔

ہر قوم اپنے مفاد کو ترجیح دیتی ہے لیکن یہ تجارت ہی کا میدان ہے جہاں ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ پر مراسم استوار کرنے کے مواقع آتے ہیں۔ حقیقت پسندی پر مبنی بین الاقوامی تعلقات میں ہمیں اپنی ’’طلب‘‘ کو دوسروں کی ’’رسد‘‘ اور ’’استعداد‘‘ کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے۔‘‘اپنے 2002کے کالم ’’ دو ملک ایک قوم‘‘ میں لکھا تھا’’پاکستان اور بنگلادیش کے مابین ٹیرف کے بغیر آزادانہ تجارت ہونی چاہیے۔ پاکستان سے بنگلا دیش کو کپاس، کاٹن ٹیکسٹائل، کھاد، باسمتی چاول، اریگیشن پمپ، ریلوے ویگنز، سمندری کشتیاں، شوگر ملز، سیمنٹ پلانٹس اور پھل وغیرہ اور کنزیمر آئٹمز کی پوری رینج درآمد کیے جاسکتے ہیں۔

بنگلا دیش ہمیں پٹ سن، پٹ سن سے تیار کردہ مصنوعات، چائے، جوٹ مشینری کے پُرزے، جوٹ بیچنگ آئل اور پھل وغیرہ برآمد کرسکتا ہے۔ دوطرفہ تجارت بڑھنے سے دونوں ممالک کے عوام کا فائدہ ہوگا۔ براہ راست تجارت ان دونوں ممالک کا مستقبل ہے۔‘‘ میرے قریبی دوست میجر عبدالمنان ایک باصلاحیت اننٹریپرینیور ہیں۔ انہوں نے نہ صرف بنگلا دیش میں ٹیکسٹائل کے کارخانے بنائے بلکہ اپنے ملک سے باہر کمبوڈیا اور مڈاگاسکر وغیر میں بھی کارخانے لگائے(ان میں سے فینوم پھن کی فیکٹری دیکھنے کا مجھے بھی موقعہ ملا)۔ وہ ہمیشہ پاکستان سے ٹیکسٹائل کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔

گزشہ کئی برسوں سے بنگلایش کے فوجی افسران پاکستان میں تربیت حاصل کررہے ہیں۔ بھارت کے شدید اعتراضات کے باوجود یہ سلسلہ جاری رکھا تاہم گزشتہ چند برسوں سے دونوں ممالک کے عوامی رابطے تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ تعلقات میں بہتری کے لیے غیر معمولی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے مابین سفر کے لیے ویزا اور تجارت کے لیے ٹیرف کی رکاوٹیں ختم کرکے 1971سے قبل کی آزادانہ نقل و حرکت کو بحال ہونا چاہیے۔ میں 26مارچ 1990کو لکھے گئے اپنے مضمون سے یہ اقتباس نقل کرنا چاہوں گا کہ ’’بنگلا دیش کے لغوی معنی بنگالیوں کی سرزمین ہے۔

جس میں مسلمان اور ہندو دونوں ہی شامل ہیں۔ کلکتہ، چھلنا اور چٹاگانگ کی بڑی بندرگاہوں کے ساتھ یہ علاقہ خوراک یا دیگر ضروریات کی قلت کے بغیر معاشی طور پر خود انحصاری کا حامل ہے۔ بھارت اپنے خطے کے اس راز سے واقف ہے اور اسے بنگلا دیش کی اقتصادی اہمیت کا بھی ادراک ہے۔ تاہم اس خطے کے تاریخی اور نسلی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہاں مغربی بنگال، بنگلادیش، گورکھالینڈ، سکم، بھوٹان، میگھالیہ، بوڈولینڈ، ناگالینڈ، مزورام، آسام اور تری پورا وغیرہ کی متعدد قومی ریاستیں اپنا وجود رکھتی ہیں اور اپنے محل وقوع کے اعتبار سے ان کی حیثیت واضح طور پر آزادانہ ہے۔

یہاں تک کے ہندو بادشاہت نیپال کے گرد بھی ہندوستانی سرزمین کا(جغرافیائی اور معاشی) گھیرا ہے۔ سب سے بڑھ کر بھارت کی بے جا مداخلت سے بنگلادیشی عوام کی غربت اور مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ممکنہ طور پر ’’ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹ آف ساؤتھ ایشیاء‘‘ ہی اس خطے کے مسائل کا حل ہے۔ یہ تصور سیاسی نہ بھی ہوتو پچاس کروڑ انسانوں کو ایک اقتصادی کنفیڈریشن کی صورت میں ان کے مسائل کا حل دے سکتا ہے۔ سیکڑوں میل دہلی سے کنڑول ہونے کے بجائے یہاں ایسی مؤثر جغرافیائی اور اقتصادی اکائیاں ہیں جو کسی کی بالادستی کے بغیر مشترکہ منڈیاں تشکیل دے سکتی ہیں۔

اور ان میں بنگلادیش اس خطے کی سرکردہ معاشی اکائی کی حیثیت حاصل کرسکتا ہے۔‘‘جولائی میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ہم منصب شیخ حسینہ کو ٹیلی فون کرکے ایک نئی شروعات کی ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمشنر نے وزیر اعظم بنگلادیش سے ملاقات کی۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ دونوں ممالک میں تعینات ہائی کمشنر ایک دوسرے کے ملک میں احترام اور رسوخ رکھتے ہیں۔ پاکستانی ہائی کمشنر کی بنگلادیشی وزیر اعظم سے خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی اور برادرانہ تعلقات کی مزید بہتری پر اتفاق کیا گیا۔

غیر معمولی صلاحیت کے حامل ان دونوں سفارت کاروں نے دوطرفہ تعلقات کی بہتری میں مثالی کردار ادا کیا۔ دوسری جانب بھارت کے متنازعہ شہریت قانون کے بعد بنگلادیش اور بھارت کے مابین تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگیا۔ بھارتی وزیر اعظم نے آسام میں رہنے والے 20لاکھ بنگالی مسلمانوں کو بیک جنبش قلم ’’غیرملکی‘‘ بنا دیا اور بنگلادیش میں دھکیلنے کے لیے دھمکانے لگے۔ چین بھارت کشیدگی بھی اس نئی صورت حال کی وجہ ہے ، اس لیے کہ بنگلا دیش بھی چین کے بی آر آئی منصوبے کا حصہ ہے اور بھارت کے ساتھ پانی پر اس کے دیرینہ تنازعات ہیں۔

بھارت کے ساتھ تعلقات بنگلا دیش کا اپنا معاملہ ہے اور پاکستان کو اس میں ملوث نہیں ہونا چاہیے ، اسی طرح بھارتی خواہشات کو بھی ان دونوں ممالک کے مراسم پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ کورونا نے دونوں ممالک ہی کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ہمیں غیر روایتی انداز میں اپنی بحالی کے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔ عالمی اور علاقائی سطح پر طاقت کے بدلتے توازن اور حالات کے ساتھ پاکستان اور بنگلا دیش دونوں کے لیے نئے مواقع پیدا ہوچکے ہیں۔ سفارتی اور معاشی تعلقات کی تشکیل نو ہم دونوں ممالک کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)