|

وقتِ اشاعت :   October 22 – 2021

بلوچستان کی سیاست روز ایک نئی رخ اختیار کرتی جارہی ہے ، وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر اکثریت کس کے ساتھ ہوگی یہ ابھی ابہام میں ہے، دونوں طرف سے اکثریت کے دعوے کئے جارہے ہیں مگر ساتھ ہی سنگین نوعیت کے الزامات کا سلسلہ بھی چل پڑا ہے۔ گزشتہ روز پانچ اراکین اسمبلی کی اجلاس میں عدم شرکت کے بعد حکومتی ناراض اراکین کی جانب سے الزام لگایاگیا کہ ان اراکین کو اغواء کیا گیا ہے جس کے بعد لالارشید اسمبلی پہنچے، بشریٰ رند نے ٹوئٹرپر بیان جاری کرتے ہوئے اغواء کی تردید کی جبکہ ماہ جبیں کا بھی بیان سامنے آگیا۔

اس تمام تر عمل کے دوران سیاسی ماحول میں شدت ضرور دیکھنے کو ملی۔ بلوچستان میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کا اصول ہے کہ جب کسی کو اکثریت حاصل ہو تب ہی وہ قائد ایوان بن سکتا ہے، 34 افراد کی اکثریت سے تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اس منصب پر رہنے کے حق دار نہیں، ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہاکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال ہارس ٹریڈنگ کے لیے تحریک کے خلاف مقابلہ کر رہے ہیں، وزیر اعلیٰ نہ صرف ہارس ٹریڈنگ بلکہ ایم پی ایز پر دباؤ بھی ڈال رہے ہیں، بشریٰ رند کا ٹویٹ غلط اور بے بنیاد ہے، پاکستان کی مقتدر قوتوں سے اپیل ہے کہ ہمیں تحفظ فراہم کریں، جام کی خواہش ہے کہ ہم مر جائیں، ملک سکندر ایڈووکیٹ کاکہناتھا کہ لالا رشید بلوچ کو بھی حبس بے جا میں رکھا گیا، پہلے اغواء برائے تاوان سنا تھا لیکن اغواء برائے ووٹ پہلی بار سنا ہے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنا ردعمل ویڈیو بیان کے ذریعے دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے کچھ عرصے سے سیاسی حوالے سے گمراہ کن صورتحال پیدا کی جارہی ہے، بے بنیاد دعوے اور غلط اعدادوشمار بتائے جارہے ہیں، جو لوگ ناراض اراکین کے ساتھ نہیں ہیں انہیں بھی ساتھ ملانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، اراکین کے اغواء ہونے کا بھی انتہائی غیر مناسب الزام عائد کیا گیاہے ، جام کمال نے کہاکہ جب اراکین واپس آگئے تو انہوں نے خود تردید کی کہ ہم اغواء نہیں ہوئے، جن اراکین کے غائب ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے انہی کی دستخط شدہ درخواست رات گئے اسمبلی میں پیش کی گئی۔

ظہور بلیدی اور باقی اراکین سیاست کا عجیب ہی کھیل کھیل رہے ہیں، جام کمال کاکہناتھا کہ جھوٹ اور منفی پروپیگنڈہ کے ذریعے سیاست نہیں ہونی چاہئے، اگر اراکین ان کے ساتھ ہیں تو حمایت پر شک کیوں کیا جارہا ہے ۔ بہرحال بلوچستان میں وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کامعاملہ ذاتی جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر تاجارہا ہے اس تمام تر عمل کے باوجود بھی نتائج کے حوالے سے کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوسکتا ہے سیاسی وفاداریاں بھی تبدیل ہوسکتی ہیں مگر یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوگی کیونکہ بلوچستان میں باپ نے بھی اس عمل کو دہرایا ہے اور پوری سیاسی بساط کو لپیٹ کر ایک نیا رخ سیاست کو دیا ہے ،آج اسی بحران کا شکارخود باپ کی حکومت ہورہی ہے جس کے مستقبل کے حوالے سے پہلے بھی کہاجاچکا ہے کہ شاید بلوچستان عوامی پارٹی بھی دیگر جماعتوںکی طرح مستقبل میں دھڑوں میں تقسیم ہوجائے گی اور بعض سیاسی شخصیات کی عام انتخابات سے قبل دیگر جماعتوں میں شمولیت بھی متوقع ہے۔