|

وقتِ اشاعت :   October 27 – 2021

ملک میں گزشتہ تین سالوں سے عوام کسی اچھی خبرکے منتظر ہیں کہ حکومتی سطح پر انہیں کوئی خوشخبری مل جائے جس کا براہ راست تعلق ان کی زندگی میں بڑی معاشی تبدیلی سے ہو مگر شومئی قسمت آئے روز ایک نیا پہاڑ عوام پر گرادیاجاتا ہے جس میں مہنگائی سرفہرست ہے ۔عوام کیلئے سیاسی کھینچا تانی کشیدگی قابل برداشت ہوسکتی ہے کیونکہ ستر سالوں کے دوران ملک میں بڑے سیاسی اتار چڑھاؤ آج تک لوگ دیکھتے آئے ہیں اور اس عمل کے عادی بھی ہوچکے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں یہاں تک کہ جمہوریت کا راگ الاپتے نہ تھکنے والی سیاسی جماعتوں نے نظام کو اس قدر مفلوج بناکر رکھ دیا ہے کہ پارلیمان کا تقدس اوراہمیت عوام میں اب وہ نہیں رہی جس سے کبھی توقعات وامیدیں وابستہ رکھے ہوئے تھے۔

کیونکہ اب سیاسی تبدیلیاں عوام کی صحت پر کوئی خاص اثرانداز نہیں ہوتیں اور نہ ہی اسے اپنے اعصاب پر حاوی کرتے ہیں بلکہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ اب زندگی گزارنے کے لیے دو وقت کی روٹی کاسکون سے میسر آنا ہے مگر یہ بھی اب ایک خواب بن کر رہ گیا ہے جس کا اندازہ حالیہ رپورٹ سے واضح طور پر لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کا 70 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیاہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اکتوبر 2018 سے اکتوبر 2021 تک بجلی کی قیمتوں میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح ایل پی جی کے 11.67 کلو گرام سلنڈر کی قیمت 51 فیصد اضافے کے بعد ایک ہزار 536 روپے سے بڑھ کر 2 ہزار 322 روپے کی سطح پر پہنچ گئی۔پیٹرول کی قیمت میں 3 سال کے دوران 49 فیصد تک اضافہ ہوا اور فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 93 روپے 80 پیسے سے بڑھ کر 138 روپے 73 پیسے ہو گئی۔وفاقی ادارہ شماریات کے رپورٹ کے مطابق کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ خوردنی گھی وتیل کی قیمتوں میں ہوا۔

گھی کی فی کلو قیمت 108 فیصد اضافے سے 356 روپے تک پہنچ گئی جبکہ خوردنی تیل کا 5 لیٹر کا کین 87 اعشاریہ 60 فیصد اضافے کے بعد ایک ہزار 783 روپے پر پہنچ گیا۔چینی کی قیمت میں 3 سال کے دوران 83 فیصد اضافہ ہوا اور 54 روپے کلو فروخت ہونے والی چینی کی قیمت 100 روپے سے بھی تجاوز کر گئی۔ اسی طرح دالوں کی قیمت میں 60 سے 76 فیصد تک اضافہ ہوا۔ دال ماش 243 روپے کلو، دال مونگ 162 روپے کلو، دال مسور 180 روپے کلو جبکہ دال چنا 23 فیصد اضافے سے 145 روپے فی کلو پر آ گئی ہے۔آٹے کے 20 کلو کے تھیلے کی قیمت 3 سال میں 52 فیصد اضافے سے ایک ہزار 196 روپے پر آ گئی اور آٹے کی فی کلو قیمت میں 20 روپے کلو تک کا اضافہ ہوا۔3 سال میں مرغی کی قیمت میں 60 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، مرغی کی قیمت اکتوبر 2018 سے اکتوبر 2021 تک 252 روپے کلو کی سطح پر رہی، تاہم بازاروں میں مرغی کا گوشت 400 روپے کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔

3 سال میں گائے کے گوشت کی قیمت 48 فیصد اضافے سے 560 روپے کلو اور بازاروں میں گائے کا گوشت 650 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے، بکرے کے گوشت کی فی کلو قیمت 3 سال میں 43 فیصد اضافہ سے ایک ہزار 133 روپے کلو ہو گئی۔کھلا دودھ 32 فیصد اضافے کے بعد 112 روپے لیٹر ہو گیا جبکہ کراچی میں کھلا دودھ 130 روپے فی لیٹر تک فروخت ہو رہا ہے جبکہ اس میں مزید 30 فیصد اضافے کا امکان ہے۔3 سال کے دوران چاول کی قیمت میں اوسطاً 30 فیصد تک اضافہ ہوا اور مرغی کے انڈے بھی 47 فیصد اضافے سے 170 روپے فی درجن سے زائد پر چلے گئے۔ ان اعداد وشمار کے بعد عوام کس طرح کی مزید تسلی رکھے کہ تبدیلی جلد آئے گی، تین ماہ کے اندر آنے والی تبدیلی نے تین سال کے اندر ستر سالہ مہنگائی کا ریکارڈ توڑ کر عوام کی کمر ہی توڑ کررکھ دی ہے۔ یقینااس تمام عمل کے باوجود بھی عوام ذہنی طور پر تیار ہیں کہ حکومتی نمائندگان یہ تمام ملبہ ماضی کی حکومتوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ ٹھہرائیں گے کہ انہوں نے قرض لیکر اور قومی خزانے کونقصان پہنچاکر رقم بیرون ملک منتقل کی، تو کیا حالیہ قرضوں کا حساب دینے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ اتنے قرض لیکر کہاں اور کس جگہ خرچ کئے گئے کہ تین سال کے عرصے میں ستر سالہ تاریخی ریکارڈ قائم کرکے عوام کو مہنگائی کا تحفہ دیا گیا ہے۔