|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2022

پیپلز پارٹی نے ن لیگی قیادت سے ملاقات کے بعد حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ کردیاتاہم ن لیگ نے حتمی فیصلہ نواز شریف پر چھوڑ دیا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان اہم ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ عوام کا اعتماد حکومت سے اٹھ گیاہے، اب پارلیمان کا اعتماد بھی حکومت سے اٹھ جانا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے، ملک بچانا ہے تو حکومت کو گرانا ہوگا۔ میڈیا سے بات چیت میں شہباز شریف نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی تجاویز میاں نواز شریف کے سامنے رکھیں گے۔

عدم اعتماد ایک آپشن ہے جس پر ہم نے سنجیدگی سے بات چیت کی ہے۔ چند دن بعد دونوں جماعتوں کے درمیان ایک اور میٹنگ ہوگی، پھر یہ معاملہ پی ڈی ایم میں لے جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن)کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ حکومت سے چھٹکارے کے لیے تمام آئینی، قانونی و سیاسی آپشنز استعمال کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔لاہور میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ملاقات کے بعد شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ آج ایک ایجنڈے پر اتفاق نہیں کیا تو قوم معاف نہیں کرے گی، حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے آپشن پر سنجیدگی سے گفتگو کی گئی، اس پر اپنی پارٹی اور پی ڈی ایم میں مشاورت کریں گے، عدم اعتماد کے معاملے پر نواز شریف اور پارٹی کی سینٹرل کمیٹی فیصلہ کرے گی۔

شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کیخلاف تمام آئینی، قانونی و سیاسی آپشنز کو استعمال کرنا ہوگا، ہم نے طے کیا ہے کہ چند دن میں ن لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے مشاورت کرکے ہمارے اتحاد پی ڈی ایم میں اس معاملے کو لے کر جائیں گے، مشاورت کے ساتھ اکٹھے ہوکر حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔اس سے قبل سابق صدر آصف زرداری اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو کے ہمراہ لیگی قیادت سے ملاقات کے لیے ماڈل ٹاؤن پہنچے جہاں شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز نے ان کا استقبال کیا جب کہ اس موقع پر خواجہ سعد رفیق اور مریم اورنگزیب بھی موجود تھیں۔دونوں جماعتوں کی قیادت کی جانب سے اس اہم ملاقات میں ملک کی سیاسی صورتحال اور حکومت مخالف مارچ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں آئندہ کی حکمت عملی اور حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی۔

بہرحال ملک کی دو بڑی اور اہم جماعتوں کے قائدین کے درمیان ملاقات بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے یقینا اندرون خانہ دیگر معاملات پر بھی بات چیت کی گئی ہے جسے میڈیا کے سامنے نہیں لایا گیا۔ یہ ملاقات پی ڈی ایم اتحاد سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک تو دونوں جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت ہے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں بڑی تعداد ن لیگی ارکان کے ہیں ،اگر حکومت کے خلاف اِ ن ہاؤس تبدیلی پر اتفاق کیا گیا ہے جسے فی الوقت ظاہر نہیں کیاجارہا تو یہ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوسکتی ہے مگر اس ملاقات نے ایک بڑا سیاسی بھونچال پیدا کردیا ہے یقینا حکومتی حلقوں کے اندر بھی یہ ملاقات زیر بحث ہے کہ دونوںجماعتوں کا مقابلہ کس طرح کیا جائے یعنی آئندہ چند روزملکی سیاست میں انتہائی اہم ثابت ہونگے۔