|

وقتِ اشاعت :   February 7 – 2022

معروف دانشور، مصنف ،بزرگ صحافی لالا صدیق بلوچ کی چوتھی برسی آج6 فروری کو منائی جارہی ہے۔برسی کے موقع پر لالا صدیق بلوچ کے کالموں کے مجموعہ پر مبنی کتاب ” صدیق بلوچ ء گچین اوتاگ” کی رونمائی بھی ہوگی۔ لالا صدیق بلوچ کا شمار ملک کے بڑے صحافی اور تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی سیاسی و صحافتی زندگی میں بلوچستان کے حقوق کو ملک سمیت دنیا بھر کے مختلف فورمز پر اجاگر کیا خاص کر بلوچستان کے حقیقی سیاسی معاملے کا مقدمہ اپنے کالموں، تجزیوں میں پیش کیا جس سے اس کے ناقدین بھی اتفاق کرتے تھے کہ لالا صدیق بلوچ جن سیاسی، معاشرتی اور سماجی مسائل کے حل کی تجویز پیش کرتے ہیں اگر ان پر سنجیدگی سے کام کیا جائے تو بلوچستان کے بیشتر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

زمانہ طالبعلمی سے ہی لالا صدیق بلوچ نے بلوچستان کے حقوق کیلئے جدوجہد کی ،بی ایس او سے نیشنل عوامی پارٹی تک سیاسی حوالے سے متحرک رہے ،نیپ دور حکومت میں گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے پرسنل سیکرٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے ۔نیپ حکومت کے خاتمے کے بعد طویل عرصہ اپنے قریبی بزرگ سیاستدانوں میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری سمیت دیگر کے ساتھ جیل کی صعوبتیں کاٹیں مگر بلوچستان کا مقدمہ لڑنے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ اپنے کالموں اور اخبارات کے ذریعے جدوجہد کو جاری رکھا۔ کراچی کی قدیم بستی لیاری میں جنم لینے والے لالا صدیق بلوچ تین اخبارات سندھ ایکسپریس، بلوچستان ایکسپریس، روزنامہ آزادی اور ویکلی ایکسپریس کے مدیر تھے ان اداروں میں لالا صدیق بلوچ کے درجنوں شاگرد تیار ہوئے جو آج ملکی و بین الاقوامی اداروں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ لالا صدیق بلوچ کی خدمات کے پیش نظر سندھ حکومت نے کراچی میں ایک سرکاری اسکول جبکہ بلوچستان حکومت کی جانب سے میڈیا اکیڈمی ان کے نام پرمنسوب کی گئی ہے۔

ملک خاص کر بلوچستان کے سیاسی جمہوری جدوجہد کا ذکر لالا صدیق بلوچ کے بغیر ادھورا رہے گا۔لالاصدیق بلوچ ایک مثالی کردار رہے ہیں ا ن کا خاصہ یہ تھا کہ اخبارات کے مدیرہونے کے باوجود ورکنگ جرنلسٹ کے طور پر انہوں نے کام کیا۔ صبح سے لے کر رات دیر تک آفس میں خبریں، کالم ، اداریے، تجزیاتی رپورٹ جو معلومات سے بھر پور ہوتے تھے، خود ہی لکھ کر فائل کردیتے تھے۔ عموماََ یہ ہوتا ہے کہ مالکان ایک سیٹھ کی طرح مینجمنٹ کے معاملات کو ہی دیکھتے ہیں اور ان کا رویہ اپنے کارکنوں کے ساتھ بالکل مختلف ہوتا ہے مگر لالاصدیق بلوچ انتہائی دوستانہ ماحول میں اپنے ادارے کو چلاتے تھے۔ لالاصدیق بلوچ نے بلوچستان کے معاملات کے حوالے سے اپنے اخبارات پر پڑنے والے دباؤ کو کبھی خاطر میںنہیں لایا ،اشتہارات اور دیگر طریقوں سے لالاصدیق بلوچ کوذہنی ٹارچر کیا گیا مگر ان حربوں کے باوجود لالاصدیق بلوچ پیچھے نہیں ہٹے، سچ کا علم بلند کیے رکھا اور لکھتے رہے ،بولتے رہے ۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیںلاکھ اختلاف رکھنے کے باوجود ان کے حقیقت پسندی کے گرویدہ رہے ہیں ۔

دوسری جانب لالا صدیق کی زندگی کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی رہا ہے کہ مدیر ہونے کے باوجود اپنے عملے کے ساتھ ان کا رویہ ایک گھر کے سرپرست جیسا ہی رہا ہے بلکہ دیگر دوست صحافیوں کے ساتھ بھی ان کی قربت دوست اورمہربان جیسا ہی رہا ہے۔ لالاصدیق بلوچ کے دفتر میں کام کرنے والا اسٹاف بلاجھجھک اپنے مسائل ان کے پاس لے جاتے تھے یعنی اتنی اپنائیت کا تعلق تھا کہ مالک کی سیٹ پر بیٹھا شخص ہمارے گھر کا سربراہ جیساہی ہے کیونکہ لالاصدیق بلوچ دفتری امور کے علاوہ بھی اپنے عملے کا مکمل خیال رکھتے تھے جبکہ کوئٹہ کے صحافیوں کے لیے اتوار کے روز مچھلی پارٹی سمیت دیگر دعوتوں کا اہتمام اپنے گھر پرکیا کرتے تھے ۔ لالاصدیق بلوچ کو گزرے چار سال ہوگئے ہیں مگر ان کا خلاء تاحال پُر نہیں ہوسکا اور یہ خلا تا دیر ان کی کمی کا احساس دلاتا رہے گا ۔لالاجیسی عظیم شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنے کردار اور عمل سے معاشرے کو عظیم بنانے کے لیے تاریخی کردار ادا کرتے ہیں۔لالاصدیق بلوچ کی چوتھی برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی مظلوم اقوام کیلئے وقف کررکھی تھی۔