|

وقتِ اشاعت :   March 1 – 2022

سی پیک کا منصوبہ نہ صرف گوادر اور بلوچستان بلکہ پاکستان کے تمام صوبوں کے لیے ترقی و خوشحالی کے عظیم دور کی نوید ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ ہمارے لیے مستقبل کی تعمیر میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے، یہ منصوبہ چین کے عظیم الشان ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ ہے جو چینی قیادت کے بین الاقوامی وژن کا آئینہ دار ہے۔ 15 ارب روپے کی خطیر لاگت کا یہ منصوبہ گوادر بندرگاہ کو کوسٹل ہائی وے سے منسلک کرے گا۔ 19کلومیٹر طویل اس ایکسپریس وے کی تکمیل سے ہر قسم کی ٹریفک کو گوادر بندرگاہ تک آسان رسائی ملے گی۔

سی پیک میں شامل گوادر کے جن منصوبوں پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے، ان کی تکمیل سے گوادر مستقبل میں صنعتی اور تجارتی حوالے سے ایک جدید پورٹ سٹی بن جائے گا، سی پیک منصوبے میں گوادر کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اپنے گہرے پانی کی بندرگاہ کے باعث گوادر خطے کی تمام بندرگاہوں میں منفرد مقام رکھتا ہے۔اقتصادی راہداری کے ابتدائی منصوبے اپنی تکمیل کے اہم مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں، پاکستان اور چین کے اس طویل المدتی منصوبے سے دو طرفہ اقتصادی تعاون سمیت سماجی رابطوں کو بھی وسعت اور نئی بلندی ملے گی۔ اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرتے ہوئے اسے راہداری کے دیگر روٹس کے ساتھ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔اقتصادری راہداری کو صرف گزرگاہ کی سہولت کے طور پر نہیں لینا چاہیے بلکہ بلوچستان میں صنعتی زونز اور اسپیشل اکنامک زونز کے قیام کے ذریعے صوبے کے قدرتی وسائل کی ترقی کے ساتھ ساتھ موجودہ بنیادی ڈھانچے کو راہداری کے ساتھ منسلک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔بلوچستان کی 70 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جن کا ذریعہ معاش زراعت اور مالداری سے وابستہ ہے ان دونوں شعبوں کی ترقی سے بلوچستان کے عوام کو بہتر روزگار مل سکتا ہے۔

اقتصادی راہداری کا مغربی روٹ بلوچستان کے 10 سے 12 ضلعی ہیڈکوارٹروں سے گزرے گا جو صوبے کے بڑے پیداواری مراکز بنیں گے اگر ان شہروں کو صحیح معنوں میں ترقی دی جائے تو اس سے بہتر معاشی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ گوادر کو اس وقت پانی کی کمی کے سنگین مسئلے کا سامنا ہے، صوبائی حکومت اپنے وسائل سے اس مسئلے کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے تاہم مسئلے کے دیرپا حل کے لیے مزید وسائل کی ضرورت ہے۔ گوادر میں بڑے ڈی سیلینیشن پلانٹ اور میرانی ڈیم سے پائپ لائن کے ذریعے گوادر کو پانی کی فراہمی سے اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم سے گزارش ہے کہ ان منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت مدد کرے۔

اقتصادی راہداری منصوبے میں بلوچستان میں سماجی شعبہ کی ترقی بھی ضروری ہے انسانی وسائل کی ترقی کے بغیر اقتصادی راہداری کے منصوبے کی تعمیر خواب ہی رہے گی۔بلوچستان کے نوجوانوں کو تکنیکی تربیت فراہم کر کے ہنر مند بنایا جا سکتا ہے اور انہیں اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے لیے ہنر مند افرادی قوت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ تعلیمی اور تربیتی پروگراموں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔صوبے کے طلباء کو چین کے تعلیمی اداروں میں داخلے اورا سکالرشپ دینے، یونیورسٹیوں کی سطح پر تعاون کے فروغ اور ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے قیام سے صوبے کے نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر کے میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع مل سکتے ہیں۔ بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سی پیک منصوبہ پر خصوصی توجہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ بلوچستان سمیت خطے میں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوسکے مگر سب سے پہلے گوادر کے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرینگے تاکہ گوادر کے عوام سڑکوں پر نہیں بلکہ سہولیات سے آراستہ ہوکر ترقی کے اس عمل میں شریک ہوسکیں۔