|

وقتِ اشاعت :   March 15 – 2022

ملک کو 70سال سے زائد کاعرصہ ہوگیا، مختلف حکومتیں بنیں اور چلی گئیں۔ بہت ہی کم حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی جبکہ وزرائے عظم میں سے تو بیشتر رخصت ہوتے رہے ہیں۔ 2008ء سے لیکر اب تک ایک تسلسل جمہوریت کا چل رہا ہے مگر اس دورانیہ میں بھی وزیراعظم تبدیل ہوئے ہیں گویا ایک تسلسل جو جمہوریت کی ہے اس میں اب تک بہت سی خامیاں موجود ہیں او ر اس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی آپس کے اختلافات اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے معاملا ت ہیں۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایک مخصوص گروپ اس سیاسی گہما گہمی میں اپنے مفادات کے تعاقب میں تاک لگائے بیٹھاہے کہ کس جانب پلڑا بھاری ہوگا وہاں اپناحصہ ڈال کر اپنے مفادات کو حاصل کرسکے۔ یہی مخصوص گروپ ہر حکمران جماعت میں اہم وزارتوں اور عہدوں پر دہائیوں سے دکھائی دے رہاہے ۔

بنیادی سوال یہی اٹھتا ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی سے جمہوریت اور نظام کو کتنا فائدہ پہنچا اور عوام کو اس کے تبدیلی کے کیا ثمرات حاصل ہوئے ،اس پر تمام بڑی سیاسی جماعتیں بات نہیں کرتیں کیونکہ ان کی مجبوری اقتدارتک رسائی ہے اور خود کو مضبوط کرنا ہے۔ اس عمل میں سبھی بڑی جماعتیں شریک ہوئی ہیں ،اس سے قبل یاد ہوگا کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے فیصلہ پی ڈی ایم کے ہی پلیٹ فارم سے کیا تھا کہ کسی بھی لوٹے کو اپنا حصہ نہیں بنائینگے جو ہر وقت وفاداریاں تبدیل کرکے اپنے ذاتی وگروہی مفادات حاصل کرنے کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ یہی ملک کے اندر بڑا سیاسی المیہ رہا ہے یہ باتیں تمام سیاسی جماعتیں کرتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے جمہوری نظام کو کمزور کردیا ہے مگر کبھی اپنے گریباں میں جھانک کر نہیں دیکھا کہ انہوں نے خود اسی سیاسی نظام کے استحکام اورجمہوریت کی مضبوطی کے لیے کتنے بڑے فائدے اٹھائے اور شخصیات کے گرد ملکی سیاست کو رکھا ہوا ہے اس حوالے سے خود کو کبھی تبدیل نہیں کیا مگر ہر حکومت کو چلتا کرنے کے لیے ایک دوسرے کیخلاف محاذ پر دکھائی دیتے رہے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی کسی زمانے میں ایسے ہی اپوزیشن لیڈران کی صف میں کھڑے دکھائی دیتے تھے اور اسی اپوزیشن میں موجود اتحادیوں کو رخصت کرنے کے لیے تحریک چلاتے رہے مگر حاصل ووصول کیا ہوا، اس کے نتائج کیا نکلے سب کے سامنے ہے کہ نظام آج بھی اسی طرح کمزور اور لڑکھڑاتی دکھائی دے رہا ہے ۔

بڑے سلوگن اور نعرے دیکر محض عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلاجاتا رہا ہے اور یہ گیم اب بھی جاری ہے۔ موجودہ سیاسی حالات کو ہی دیکھ لیں کہ کس طرح سے بدترین مخالفین شیر وشکر ہوکر ایک دوسرے کے یہاں چکر لگارہے ہیں اور جسے مذاکرات بات چیت اہم بیٹھک کانام دیکر سیاسی گہماگہمی کا منظر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،درحقیقت یہ وہ وارداتیں ہیں جو تاریخ بن رہی ہیں کیونکہ اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آج کے اتحادی کل ایک دوسرے کے بدترین مخالفین بن کردوبارہ میدان میں نظرنہیںآئینگے ،یہ تماشا چلتا رہے گا نظام سے کسی کو سروکار نہیں، جمہوریت کتنی مضبوط اورمستحکم ہے، قانون ساز اداروں کوکتنی آزادی دینی چاہئے، ادارے اپنے حدود میں رہ کر کام کس طرح کریں ،عوام کے مفادات کو مدِ نظر رکھ کر قانون سازی کی جائے، ملک میں ترقی اور خوشحالی کے نئے سفر کو کس طرح ڈگر پر لایاجائے ،دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ بہترین سفارتی اور تجارتی تعلقات ڈپلومیٹک انداز میں آگے بڑھائیں اس پر کوئی توجہ نہیں صرف اپنے مفادات اولین ترجیح رہے ہیں ،مگر یہ تاریخ ہے پھر خود کو دہرائے گی، یہی کھلاڑی ہونگے اور میدان پھرسج جائے گا ،ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے سڑکوں پر ایک دوسرے کو گھسیٹا جائے گا مگر اسے بھلایا نہیں جاسکتا، یہ غلط فہمی دور کی جائے ۔