|

وقتِ اشاعت :   April 4 – 2022

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے رولنگ روک دی۔قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی زیر صدارت شروع ہوا۔ وقفہ سوالات پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آئینی حق ہے اور تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت لائی جاتی ہے۔ 7 مارچ کو ہمارے سفیر کو میٹنگ میں طلب کیا جاتا ہے اور ہمارے سفیر کو بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک اعتماد لائی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 5 اے کے تحت ریاست سے وفاداری ہر شہری کا فرض ہے اور بتایا گیا کہ بیرون ملک کی مدد سے حکومت ہٹائی جاسکتی ہے۔ کیا پاکستان کے عوام کٹھ پتلیاں ہیں اور یہ تماشہ نہیں چل سکتا۔ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے رولنگ روک دی اور اجلاس ملتوی کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک آئین کی رو کے منافی ہے۔ڈپٹی اسپیکر کا کہنا تھا کہ تحریک اعتماد عالمی سازش کے تحت لائی جا رہی ہے اسے مسترد کرتے ہیں، وفاقی وزیر کی جانب سے اٹھائے گئے نکات بالکل درست ہیں۔ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو بغیر ووٹنگ کے مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لیا۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے معاملے پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریاستی عہدیداروں کو کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے روک دیا۔ سپریم کورٹ بار اور سیاسی جماعتوں کو ازخود نوٹس میں فریق بنانے کا حکم دے دیا اور کہا کہ ججز تمام صورتحال سے آگاہ ہیں لہٰذا مزید سماعت آج کی جائے گی۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ سیاسی جماعتیں پر امن رہیں، کوئی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھا یا جائے۔

عدالت نے سیکرٹری دفاع کو ملک میں امن وامان سے متعلق اقدامات پرآگاہ کرنیکانوٹس جاری کیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ رمضان شریف ہے، سماعت کو لٹکانا نہیں چاہتے۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کوئی حکومتی ادارہ غیر آئینی حرکت نہیں کرے گا، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے اس صورتحال سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم دیا کہ امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھا جائے، عدالت کا حکم آج کیلئے یہی ہے۔عدالت نے حکم دیا کہ سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع امن وامان کی صورتحال سے عدالت کو آگاہ کریں۔چیف جسٹس نے پیپلزپارٹی کی درخواست مقرر کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ سپریم کورٹ ڈپٹی اسپیکر کے اقدامات کا جائزہ لے گی۔

بہرحال یہ اب قانونی معاملہ ہے ڈپٹی اسپیکر کا یہ عمل کس حد تک قانونی اور آئینی اس پر اب سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیتے ہوئے سماعت شروع کردی ہے امید ہے کہ اعلیٰ عدلیہ سے ایک اچھا فیصلہ آئے گا جو ملک کے وسیع تر مفاد میں ہوگا تاکہ ملک میں جمہوری نظام چل رہا ہے اس کا تسلسل برقرار رہے سیاسی محاذ آرائی اور جنگ کا متحمل ملک نہیں ہوسکتا ہے امید اور توقع تو یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں قانون اور آئین کی پاسداری کرینگے تاکہ ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہوسکے ناکہ اسے کمزور کیاجائے جس کا نقصان نظام کو پہنچے بہرحال آج دوبارہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوگی اور اس وقت سب کی نظری سپریم کورٹ پر ہی لگی ہوئی ہیں کہ کیا فیصلہ آئے گا۔