|

وقتِ اشاعت :   April 6 – 2022

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ اور اسمبلی توڑنے کے معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت آج پھر ہو گی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ مجھے ایک منٹ کے لیے سنا جائے، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو آج اجلاس ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی، پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی ہدایات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ انتہائی اہم نوعیت کا کیس زیر سماعت ہے، 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں جو ہوا اس پر سماعت پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں، عدالت کے بارے میں منفی کمنٹس کیے جا رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ عدالت معاملے میں تاخیر کر رہی ہے، پنجاب اسمبلی کا معاملہ آخر میں دیکھ لیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آج کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی، ہمیں سب کو سن کر فیصلہ کرنا ہے، یکطرفہ کارروائی نہیں کر سکتے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا معاملہ بھی اسلام آباد کے معاملے کی ایکسٹینشن ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھیں گے کس قانون کے تحت اجلاس ملتوی کیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں عدالت کے سامنے فریق ہیں، ایم کیو ایم، تحریک لبیک پاکستان فریق نہیں ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی ایم اور جماعت اسلامی بھی فریق نہیں ہیں، راہ حق پارٹی کی بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے لیکن وہ عدالت کے سامنے فریق نہیں، ازخود نوٹس کی ہمیشہ حمایت کی، شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ازخود نوٹس لیا اور قوم کے ساتھ مہربانی کی۔

بابر اعوان نے کہا کہ کیس یہ ہے اسپیکر کا اقدام غیر قانونی ہے، آرٹیکل 5 کے حوالے سے کسی کو غدار کہا گیا، عدالت سے کہا گیا ہے کہ آئین کے 2 آرٹیکل کی تشریح کی جائے، سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے ان کو آرٹیکل 5 کے تحت غدار قرار دیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ غدار ان کو نہیں، آرٹیکل 5 کے تحت کیے گئے ایکشن کو کہا گیا ہے، آئین ایسا دستاویز ہے جس کی شقوں کو ملا کر پڑھا جاتا ہے، آرٹیکل 95 کی اپنی تشریح ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر کسی نے لفظ بھی نہیں کہا، ان کا دعویٰ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ن لیگ نے پریس کانفرنس کے ذریعے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، مرکز، کے پی، پنجاب، آزاد کشمیر کی اکثریتی جماعت کو بغیر ریلیف چھوڑ دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی رولنگ پڑھے بغیر اپوزیشن لیڈر نے پریس کانفرنس کی، یہ چاہتے ہیں عدالت فوری طور پر ان کے حق میں مختصر حکم جاری کر دے، چیئرمن پی ٹی آئی کی ہدایات پر عدالت کے سامنے چند نکات رکھنا چاہتا ہوں۔

تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست گزار جماعتیں چاہتی ہیں کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا رولنگ میں حوالہ نظر  انداز کیا جائے، برطانیہ کی ایک ججمنٹ پیش کی گئی، بتاؤں گا اس کا یہاں کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں، میرا یقین ہے اس مقدمے میں کوئی نکتہ نظرانداز نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ  آئین پاکستان اسلامی نظریےکی بنیاد پربنا، پاکستان دوسرے ملکوں سے مختلف ہے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکربیرونی سازش پرخاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے پابند ہیں، کیا آئین پاکستان کا موازنہ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ کے آئین سے کیا جا سکتا ہے؟ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے، ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات، جس پر  چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے۔

بابر اعوان کا کہنا تھا کہ جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ اس کیس میں لاگو نہیں ہوتا، کیا سندھ ہاؤس اور لاہور کے ہوٹل میں جو ہوا اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ ارکان اسمبلی کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا۔

ان کا کہنا تھا تمام شہریوں پر لازم ہے وہ ریاست کے ساتھ مخلص ہوں، جو باہر سے پاکستان آتے ہیں انہیں بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو پاکستانیوں کو ہیں، دیگر ممالک کے آئین میں ایسے حقوق نہیں دیے گئے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی قرار دیا ہے کہ پاکستان سے وفاداری ہر شہری پر لازم ہے، آئین شکنی پر کسی بھی شہری کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں دیکھنا ہے کیا اسپیکر کو اختیار ہے وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی فیکٹ پر جا سکے، آئینی طریقہ ہے جسے بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آپکو یہ بھی بتانا ہے، عدالتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں، اس کیس میں ایک الزام لگایا گیا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے ایک اقدام کیا ہے، بنیادی چیز یعنی حقائق پر آئیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے گزشتہ روز سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ قائم مقام حکومت کا قیام عدالتی کارروائی سے مشروط ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے موقع پر پارلیمنٹ میں اکثریت موجود تھی، رولز کے تحت آئینی حق نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت وفاداریوں کی بنیاد پر نہیں، آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دے گی۔

یاد رہے کہ 3 اپریل بروز اتوار کو ہونے والے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کی قرارداد مسترد کر دی تھی۔

اپوزیشن نے اتوار ہی کے روز سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم اسی روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ساتھی ججز کے مشورے پر ملک میں پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر ازخود نوٹس لے لیا تھا۔