|

وقتِ اشاعت :   April 19 – 2022

ملک میں سیاسی حوالے سے ایک عجیب سے ماحول پیدا ہواہے ہیجان سی کیفیت پیدا کی گئی ہے سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعد اداروں پر براہ راست حملہ آور ہورہی ہے خاص کر آئینی اداروں کے خلاف سڑکوں پر بہت کچھ کہا اوربولا جارہا ہے ،عوام اور آئینی اداروں کے درمیان ایک خلیج پیدا کی جارہی ہے ۔پی ٹی آئی کے جلسوں میں یہ واضح دکھائی دے رہا ہے کہ وہ دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ انارکی جیسی صورتحال پیدا ہو اور موجودہ حکومت کے اوپر اپنا پریشر برقرار رکھتے ہوئے آئینی اداروں پر بھی ہرزہ سرائی کرکے انتخابات کی طرف جانے کا فیصلہ کرواسکیں۔

مگر زبردستی اور دباؤ کے ذریعے انتخابات کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا جب موجودہ حکومت میں موجود اتحادیوں کے خلاف عدالتی فیصلے آتے رہے تو اس کا بھرپور جشن مناتے رہے 2018ء کے انتخابات کے دوران جہازبھربھر کر اراکین اسمبلی کو پی ٹی آئی نے اپنے ساتھ ملاکر حکومت بنائی تو اس دوران لوٹاکریسی بھول گئے تھے۔ آج جو کچھ ہورہا ہے وہ آئین کے مطابق ہی ہورہا ہے ساتھ ہی یہ مکافات عمل بھی ہے۔ بہرحال پی ٹی آئی ہر وقت یہی بات کہتی آئی ہے کہ ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں یہ پہلی حکومت ہے جس کے اداروں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور ایک پیج پر ہیں جب حکومت ختم ہوئی تو ایک پیج غائب ہوگیا۔پی ٹی آئی نے تو تمام حدیں پار کردیں، قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کے روز ڈپٹی اسپیکر نے جو تماشا لگایا وہ سب کے سامنے ہے کہ کس طرح سے اپنے منصب کے حلف کے ساتھ وفاداری کرنے کی بجائے پارٹی بن کر رولنگ دی جس کے بعد سپریم کورٹ متحرک ہوگئی۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پی ٹی آئی اپنے ہی منحرف اراکین کے خلاف کارروائی کرتی مگر ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ ایک مبینہ خط کو جواز بناکر اس پر ایک خطرناک سیاست کا آغاز کردیا جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے مکمل بیان سامنے آچکا ہے اس کے باوجود بھی مداخلت اورسازش کی گردان سے عوام میں اشتعال انگیزی پھیلائی جارہی ہے۔ہمیں اس بحث میںزیادہ پڑنے کی ضرورت نہیں کہ مداخلت اور سازش کی واردات کس طرح ہوتی ہے اگر کسی کو سازش کرنی ہے تو اپنے مخالف کو واضح طور پر بتائے گا کہ اس کا پلان کیا ہے یہ سب عقل کی باتیں ہیں ۔بہرحال جذبات اور احساسات کو ابھارکر عوام کو گمراہ کیاجارہا ہے اس تمام عمل میں ظاہر سی بات ہے کہ آئینی ادارے اپنے اوپر الزامات کو برداشت نہیں کرینگے۔

گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے اس کی پرواہ نہیں، آئین کی پاسداری ہماری ذمہ داری ہے، یہ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے،کسی کو سپریم کورٹ پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں۔سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آئین کی خلاف ورزی کوئی چھوٹی بات نہیں،کچھ لوگ تو فوراً آرٹیکل 6 پر چلے جاتے ہیں، ہم نے دیکھنا ہے جب آئین کی خلاف ورزی ہو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، کیا آئین کے خلاف ورزی پرکوئی ہنستے کھیلتے گھنٹی بجاکر نکل جائے یا آئین کے خلاف ورزی کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم آئین کے محافظ ہیںجب دس 15 ہزارلوگ جمع ہوکر عدالتی فیصلوں پرتنقید شروع کردیں تو ہم فیصلے کیوں سنائیں؟ عدالت سیاسی بحث میں کیوں شامل ہو؟ سیاسی رہنماؤں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ پبلک میں عدالتی فیصلوں کادفاع کرسکیں، آئین کی پاسداری اور حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادکا کہنا تھا کہ پارٹی سے انحراف رکن اسمبلی کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت تاحیات نااہلی ہوئی تو آرٹیکل 95 کی کیا اہمیت رہ جائیگی؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ آرٹیکل 95 کا سوال ابھی عدالت کے سامنے نہیں۔بی این پی مینگل کے وکیل مصطفٰی رمدے نے دلائل میں کہا کہ صدر نے تو ریفرنس میں عدالت سے آئین دوبارہ لکھنے کا کہاہے، آرٹیکل 63 اے بالکل واضح ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئینی ترمیم میں ووٹ نہ دینا اور مخالف پارٹی کو ووٹ دینا الگ چیزیں ہیں، مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے مستعفی ہونا زیادہ معتبر ہے۔وکیل مصطفی رمدے نے کہا کہ مستعفی ہونے جیسا انتہائی اقدام واحد حل کیسے ہوسکتا ہے؟ پارٹی سربراہ کی پابندی کرنا غلامی کرنے کے مترادف ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایسی بات سے آپ پارلیمانی جمہوریت کی نفی کررہے ہیں، پارلیمانی پارٹی کے فیصلے سے کسی رکن کو اختلاف ہے تو استعفیٰ دے، ضمنی الیکشن آزاد حیثیت سے لڑ کر واپس آیا جاسکتا ہے،

آرٹیکل 95 اور آرٹیکل 63 اے میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔وکیل مصطفی رمدے نے کہا کہ عدالت کے خلاف سنجیدہ قسم کی مہم چلائی جارہی ہے، عدالت کومفروضوں کی بنا پر غیر ضروری سیاسی عمل میں دھکیلا گیا۔آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس کی سماعت کل دن ایک بجے تک ملتوی کردی گئی۔اعلیٰ عدلیہ کا جواب بھی آگیا ہے مگر پی ٹی آئی کے چیئرمین اور اس کی قیادت کے رویے سے یہی لگتا ہے کہ وہ مزید اس کھیل کو جاری رکھیں گے او ر وہ ایک الگ دنیا میں رہتے ہوئے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اس طرح کی سیاست کے ذریعے انارکی اور انتشار پھیلاکر انتخابات کی طرف ملک کو لیکر جائینگے۔ ریاستیں قوانین اورآئین کے تحت چلتی ہیں اور اپنا کام کرتی ہیں جس کا احترام سب پر فرض ہے۔ لہٰذا پی ٹی آئی مبینہ خط کا کھیل ختم کرکے مزید اشتعال انگیزی سے گریز کرے، سیاسی دباؤ کے ذریعے ماضی کی کرپشن اور بیڈگورننس کو نہیں چھپایاجاسکتا، قانون اپنا راستہ اختیار کرے گی اور پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اس کا سامنا ضرور کرنا چاہئے۔ احتساب کی شفافیت کا نعرہ لگانے والے اس پر عملی طور پر بھی چلیں ٹکراؤ کے نقصانات زیادہ ہونگے ۔