|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2023

کوئٹہ; بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سابق وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے حکومت کی جانب سے وڈھ کے مسئلے پر بنائی گئی کمیٹی کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ بند کمرے میں فیصلہ کرکے بلوچستان کو ایک بار پھر دہشت گردیکی لپیٹ میں دھکیلا جارہا ہے ْ۔

تاکہ صوبے میں آپریشن کرکے خون کی ہولی کھیل کر بی این پی کو سیاسی عمل سے آؤٹ کیا جاسکے۔ ان فیصلوں کے خلاف پارٹی نے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے 27 ستمبر کو بلوچستان بھر میں ضلعی ہیڈ کوارٹروں کے سامنے احتجاجی مظاہرے 29 ستمبر کو شٹر ڈان اور 7 اکتوبر کو پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی۔۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ملک نصیر احمد شاہوانی، غلام نبی، شکیلہ نوید دہوار ، موسی جان ، میر سکندر جان شاہوانی سمیت دیگر کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا آغا حسن بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے پارٹی پلیٹ فارم سے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے مارشل لاکے دور حکومت ، سول ڈکٹیٹر اور آمرانہ دور میں بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے بلوچستان اور عوام کے حقوق کے حصول پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا گزشتہ دو ماہ سے وڈھ میں حالات کو کشیدہ بناتے ہوئے مسائل کے حل کی بجائے معاملات کو جان بوجھ کر الجھایا جارہا ہے۔

اور کاروباری سرگرمیاں معطل کرنے کے ساتھ ساتھ بازار، مارکیٹیں بند کرکے زمینداروں کو کاشت کاری سے بھی روکا گیا ہے ۔

اس طرح کے شرمناک اقدامات اٹھا کر بلوچستان کا تشخص پامال کیا جارہا ہے ارباب اختیار اور اس وقت کے وزیر اعظم نے بھی صورتحال کا نوٹس لیا تھا معاملات کے حل کے لئے کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔

لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی انہوں نے کہا کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے نہ کہ قبائلی نہ کہ زمین تنازعہ ہے بلکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کو سیاست سے باہر رکھنے کی سازش ہے حالانکہ سردار اختر مینگل نے اپنی ذاتی زمین علاقے کی تعمیر و ترقی لوگوں کو تعلیم ، صحت اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے ادارے قائم کرنے کے لئے دی ہے اس کے باوجود ان کے گھروں پر جدید ہتھیاروں سے حملے کئے گئے اور ہمارے چار ہمدرد بہی خواہ اکرم مینگل، امان اللہ مینگل، جاوید لہڑی اور ایک اور ساتھی کو شہید کیا ہم روز اول سے ہی ہر فورم پر اپنا موقف پیش کررہے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہورہی نواب اسلم رئیسانی کی جانب سے حالات کی بہتری کے لئے کوشش کی گئی۔

ہم نے انہیں اختیار دیا لیکن دوسرے فریق نے اختیار نہیں دیا۔

اور معاملہ جوں کا توں چیئرمین سینیٹ کی سربراہی میں حکومتی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں نمائندوں کا تعلق بی اے پی سے ہیں اس وقت کے سینیٹر آج کے وفاقی داخلہ سرفراز بگٹی بھی ممبر تھے اور بی این پی کی جانب سے ثنابلوچ اور میر اکبر مینگل جبکہ شفیق مینگل کی جانب سے ان کے چچا اور دیگر نمائندے تھے گزشتہ روز مذکورہ کمیٹی کا ایک فریق کو نظر انداز کرکے اجلاس کیا گیا اور اس میں فیصلہ کیا کہ بلوچستان میں سردار اختر مینگل کے لوگوں کے خلاف آپریشن کرکے خون کی ہولی کھیلی جائے ۔

جس کی ہم مذمت کرتے ہیں ہم نے جب یہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اسی وقت اس پر اعتراض کیا تھا اور اس میں نواب اسلم رئیسانی ، محمود خان اچکزئی ، مولانا عبدالواسع کے نام تجویز کئے تھے کہ ایسی شخصیات کو شامل کیا جائے جو تمام صورتحال کا جائزہ لیکر فیصلہ کریں جو قبول ہو لیکن اس پر کوئی عمل نہیں کیا۔

 

اگر مقتدر قوتیں بلوچستان کی صورتحال کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو وہ منظور نظر لوگوں کی پشت پناہی چھوڑ کر حقیقت پر مبنی فیصلے کریں بلوچستان کو ایک بار پھر دہشت گردی کی جانب دھکیلا جارہا ہے تاکہ ڈیرہ بگٹی جیسے حالات پیدا کرکے بلوچستان کے لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جس کی ہم اجازت نہیں دیں گے اگر ایسا اقدام ہوا اور وڈھ سمیت صوبے میں جنگ و جدل کا ماحول پید اکیا گیا تو اس کی تمام تر ذمہ داری نگران حکومت اور ڈیتھ اسکواڈ کی پشت پناہی کرنے والوں پر عائد ہوگی ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی وڈھ کے حالات کی بہتری کے لئے ایک وسیع تر کمیٹی تشکیل دیکر حالات کی بہتری چاہتی ہے اگر ایسا نہ کیا گیا اور ڈیتھ اسکواڈ کی غلط کارروائیوں کے خلاف 27 ستمبر کو صوبے بھر میں ضلعی ہیڈ کوارٹر کے سامنے احتجاجی مظاہرے۔ 29 ستمبر کو شٹر ڈان اور 7 اکتوبر کو پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بی این پی نے ہمیشہ ٹھوس موقف اختیار کیا ہے اور غلط بیانی سے کام نہیں لیا تاکہ معاملات کو بہتر بنایا جاسکے۔