|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2023

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کا غیر قانونی افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ ’ناقابل قبول‘ ہے اور حکام پر زور دیا کہ پالیسی پر نظرثانی کریں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں اور اس کے بعد نہ جانے والوں کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو ہم نے یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ اس تاریخ تک رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے ممالک میں واپس چلے جائیں اور اگر وہ یکم نومبر تک واپس نہیں جاتے تو ریاست کے جتنے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں وہ اس بات کا نفاذ یقینی بناتے ہوئے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یکم نومبر سے پہلے تک ان کے پاس وقت ہے کہ وہ یہاں سے چلے جائیں ورنہ اس کے بعد انہیں ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اردو اور انگریزی زبانوں میں ایک بیان میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ سلوک ناقابل قبول ہے، اس حوالے سے انہیں اپنے پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے سیکیورٹی مسائل میں افغان مہاجرین کا کوئی ہاتھ نہیں، جب تک مہاجرین اپنی مرضی اور اطمینان سے پاکستان سے نہیں نکلتے، انہیں برداشت سے کام لینا چاہیے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس حوالے سے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

اقوام متحدہ کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 13 لاکھ افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں اور مزید 8 لاکھ 80 ہزار کو قانونی حیثیت حاصل ہے، تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں 17 لاکھ افغان شہری غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔

افغانستان کے ترجمان کی جانب سے تنقید کے علاوہ اس پالیسی کے اعلان پر مختلف حلقوں کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایکس پر کہا کہ حکومت ایک بار پھر مہاجرین کے ساتھ فٹ بال کھیل رہی ہے، اور کچھ دیگر مقاصد کے لیے جوڑ توڑ کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا ردعمل تباہ کن ہوگا، سہ فریقی معاہدہ صرف رضاکارانہ واپسی کی اجازت دیتا ہے۔

 

ایک روز قبل اسلام آباد میں افغان سفارت خانے نے پنجاب اور سندھ پولیس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ افغان مہاجرین کے خلاف ’بے رحم‘ آپریشن کر رہے ہیں، اور حتیٰ کہ خواتین اور بچوں کو بھی گرفتار کیا جارہا ہے۔

ایکس پر جاری بیان میں افغان سفارت خانے نے کہا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ایک ہزار سے زائد افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا ہے، حالانکہ ان میں نصف سے زائد کے پاس پاکستان میں رہنے کا قانونی حق موجود ہے۔

علاوہ ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی پناہ گزینوں کے لیے خوف کی فضا پیدا کرنے پر اظہارِ تشویش کیا اور حکومتِ پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کو گرفتار اور ہراساں کرنے کا سلسلہ روکنے کا مطالبہ کیا۔

 

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ طالبان کے ظلم و ستم کے خوف سے بہت سے افغان شہری پاکستان فرار ہونے پر مجور ہوگئے تھے، جہاں انہیں بلاجواز گرفتاریوں اور ملک بدر کیے جانے کی دھمکیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے بھی اس ڈیڈ لائن کی مخالفت کی ہے، پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر (یو این ایچ سی آر) کے ایک عہدیدار قیصر خان آفریدی نے ترک نیوز ایجنسی ’انادولو‘ کو بتایا کہ کسی بھی پناہ گزین کی واپسی رضاکارانہ اور بغیر کسی دباؤ کے ہونی چاہیے تاکہ ان لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں عالمی تحفظ کے خواہاں افراد کی نگرانی اور ریکارڈ کے اندراج کے لیے ایک نظام وضع کرنے اور ’مخصوص خطرات‘ سے نمٹنے کے لیے ’یو این ایچ سی آر‘ پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہے۔

ستمبر میں افغان مہاجرین کو حراست میں لینے کا بڑھتا ہوا رجحان دیکھا گیا، حکومت نے اس کریک ڈاؤن کے پیچھے غیرقانونی پناہ گزینوں اور بڑھتے ہوئے جرائم کو وجہ قرار دیا۔

پولیس اور سیاستدانوں نے بتایا کہ صرف ایسے لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا جو غیرقانونی طور پر رہ رہے ہیں، اور یہ بڑھتے ہوئے جرائم اور امیگریشن کے ناقص ضوابط کی وجہ سے وسائل پر دباؤ ہے، ادھر افغانوں کا کہنا ہے کہ گرفتاریاں بلا امتیاز کی گئی ہیں۔