|

وقتِ اشاعت :   February 17 – 2024

کسی زمانے میں یہ ایک ہوا کرتے تھے اب الگ الگ۔ نیشنل پارٹی اپنے آپ کو ملک گیر پارٹی کے ساتھ ساتھ قوم پرست پارٹی کہلواتی ہے، اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی اپنے آپ کو بلوچستان کی قومی جماعت اور قوم پرست کہلواتی ہے ۔بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کہتی ہے کہ پارلیمنٹ کو مورچے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور قوم پرست ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی نے صوبے کے تقریباً تمام علاقوں سے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کئے، اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نے بھی مختلف اضلاع سے اپنے امیدوار کھڑے کئے اور الیکشن مہم کے دوران تینوں جماعتوں نے خوب مہم چلائی اور کروڑوں روپے خرچ کئے ۔ بہرحال ان تینوں جماعتوں نے اپنی تمام تر توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف خرچ کیںاوررزلٹ 5 فیصد بھی حاصل نہیں کر پائے۔ نیشنل پارٹی کے حصے میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کے تین نشست آئے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کوقومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست ملی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی ایک نشست بھی حاصل نہ کرسکی ۔اگر یہ سب انتخابات میںایک ساتھ ہوتے تو بلوچستان سے صوبائی اسمبلی کے 20 اور قومی اسمبلی کے 10/8 حلقوں سے کامیابی حاصل کرسکتے تھے ۔انتخابات کی قوم پرست جماعتیں اس ناکامی کی وجوہات کو اپنے اندر ڈھونڈیں تو ان کو سب کچھ نظر آئے گا۔ انتخابات میں قوم پرستوں کو کنارے لگانے اور مبینہ دھاندلیوں کے حوالے سے ان کے موقف سے ہمیں انکار نہیں۔ مختلف اوقات میں قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں کی طرف سے پہاڑوں پر جانے اور مزاحمتی سیاست کی گونج سنائی دیتی رہی ہے لیکن یہ سب بیانات کی حد تک دبائو بڑھانے کے لیے ہوتا ہے۔
گزشتہ کئی روز سے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے بعد اگر چہ ان میں سے دو پارٹیوں نے چار جماعتی اتحاد قائم کرکے احتجاج شروع کردیا ہے جبکہ بی این پی عوامی نے اب تک خاموشی اختیارکی ہے اورشاید اسے پتہ ہے کہ یہاں احتجاج سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ۔اسی طرح احسان شاہ، میر حمل کلمتی جو بی این پی کی پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا مگر احتجاج میں ان کی کوئی سرگرمی دیکھنے کو نہیں مل رہی۔جان محمد بلیدی ، ڈاکٹر مالک بلوچ موجودہ احتجاج میں سب سے زیادہ سرگرم ہیں ۔جان محمد بلیدی کو اتنی جذباتی تقریر کرتے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا۔ بہرحال مکران میں نیشنل پارٹی کی پلیٹ فارم سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔ جس کے باعث شاید اب اس جماعت کو مستقبل میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے جیساکہ 2018سے قبل محمد نواز شریف اور اس کی صوبائی حکومت کا ساتھ دینے کے بعد ہوا۔ بلوچستان میں چار جماعتی اتحاد نے الیکشن میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف مشترکہ احتجاج کا اعلان کر دیا ہے مگر مکران میں اتحاد کے حوالے سے کوئی مشترکہ احتجاج نظر نہیں آرہی کیونکہ جب ان قوم پرست جماعتوں میں ہم آہنگی نہیں تو ایک ساتھ احتجاج کیسے کریں گی البتہ کوئٹہ کی حد تک چار جماعتی اتحاد مشترکہ طور پر احتجاج کررہی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ یہ تینوں جماعتیں کسی زمانے میںایک ہوا کرتی تھیںلیکن اب الگ الگ ہوگئی ہیں ۔شاید ان کے لیڈران کے اپنے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات یا ان کی انا پرستی نے ان کو الگ تھلگ کر دیاہے اور تقسیم در تقسیم شاید ان کا مقدر بن گیا ہے۔ ان میںایک فیصد بھی عوامی عنصر دکھائی نہیں دیتا اسی وجہ سے عام عوام میں مایوسی ہے بے اعتمادی ہے یہی قوم پرست جماعتیں صوبائی اور وفاقی حکومت کی حصہ دار یا حمایتی رہی ہیں اور اپنے ذاتی اور گروہی مفادات، اقتدار کے حصول کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن، ق، ض ،پاکستان پیپلز پارٹی ، بلوچستان عوامی پارٹی، نہ جانے کس کس سے اتحاد اور حکومت سازی کرتی رہی ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی ،جمعیتِ علمائے اسلام وغیرہ سے حکومت بنانے کے لئے کون کیا کرے گا مگر دوسری جانب قوم پرست جماعتوں کا یہ حال ہوگیا ہے کہ ان پارٹیوں کے ورکرز اس خوف سے ایک دوسرے سے علیک سلیک تک نہیں کرتے مبادا ان کے لیڈران کودیکھ کر ناراضگی کا اظہار نہ کریں۔یعنی ورکرز کے ذہنوں کو بھی تقسیم کردیا گیا ہے اور انہیںذہنی غلامی، خوف کی زنجیروں میں جھکڑ دیا گیا ہے ۔