|

وقتِ اشاعت :   February 18 – 2019

کوئٹہ : بلوچستان کے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، مذہبی اسکالرز اور سول سوسائٹی کے تنظیموں کے نمائندوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں چوبیس سال بعد بھی ہم پولیو کا خاتمہ نہیں کر سکے ، کئی ممالک نے دوسال میں خود کو پولیو فری کرلیا ، آج بھی ہم افغانستان سے پیچھے ہیں ۔

آخری ریکارڈ کے مطابق افغانستان میں2پولیو کے کیس آئے جبکہ پاکستان میں 4کیس رپورٹ ہوئے ، بلوچستان کا وسیع رقبہ اور بکھری آبادی پولیو مہم میں چیلنج کا سامنا بنتی ہے ، پولیو لا علاج مرض ہے پولیو کا شکار ایک شخص پورے معاشرے کو مفلوج کر دیتا ہے ۔

پولیو کے حق میں شرعی حوالے سے جوابات موجود ہیں ان خیالات کا اظہار کوئٹہ کے نجی ہوٹل میں منعقدہ آگاہی پولیو مہم سے متعلق سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے رکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے ، ای او سی کے کوآرڈی نیٹر راشد رازق ، این اسٹاپ لیڈ پولیو بلوچستان ڈاکٹر آفتاب کاکڑ ، ای پی آئی کوآرڈی نیٹرڈاکٹر اسحاق پانیزئی ،چائلڈ اسپشلیسٹ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو ، مولانا انوار الحق حقانی نے کیا ۔

تقریب سے خطاب میں صوبائی رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے نے کہا کہ اکثر لوگ مذہب کو آڑے لا کر پولیو پلانے سے انکار کرتے ہیں جبکہ مذہب میں بیماریوں سے بچنے کیلئے تدبیریں ہیں ، نائجیریا میں ایک کیس بھی نہیں ہے آخری ڈیٹا کے مطابق ہم افغانستان سے بھی پیچھے ہیں افغانستان میں 2 جبکہ پاکستان میں 4کیس ریکارڈ کئے گئے ، اگر پولیو مہم کے دوران علاقے کے ہی بچے بچیوں کو ویکسین دینے کیلئے استعمال کیا جائے تو لوگوں کو سمجھانا آسان ہوگا ۔

اُنہوں نے کہا کہ پولیو مہم کے دوران سیاستدانوں اور علاقے کے کونسلران سے مدد لیکر آسانی سے پولیو مہم چلائی جاسکتی ہے، مغربی ممالک نے حقیقت جان لی ہے اور وہ ترقی پر ہیں لیکن ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں ۔

راشد رازق نے کہا کہ بدقسمتی سے شعور اور تعلیم کم ہونے کے باعث ہم چوبیس سال بعدبھی پولیو ختم نہیں کرسکے جبکہ کئی ممالک پولیو کے خلاف جنگ دوسال میں جیت چکے ہیں بلوچستان کے وسیع رقبے ، بکھری آبادی ، گرم، سرد موسم کے علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی اورخانہ بدوشوں کی ہجرت کے حوالے مشکلات کا سامنا ہے جبکہ مذہبی لحاظ سے بھی انکاری والدین کا سامنا رہتا ہے۔

چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے خطاب میں کہا کہ پولیو لا علاج مرض ہے جہاں پولیو سے ایک بچہ متاثر ہوتا ہے وہاں پورا معاشرہ مفلوج ہو جاتا ہے اگر ہمارے بچے صحت مند ہوں گے ترقی ممکن ہے آج ہم اکیس ویں صدی میں پو لیو سے متاثر ہیں ایک پروپیگنڈ ا عام ہے کہ پولیو کے قطرے امریکا کا متنازعہ منصوبہ ہے یہ بات اُن سے پوچھی جائے جن کے گھر آج پولیو سے متاثرہ اشخاص موجود ہیں ۔

اُنہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پولیو کے خلاف مہم چلانے والوں کے مقابلے میں پولیو کے حق میں مہم چلانے کی ضرورت ہے ، اُنکا کہنا تھا کہ ایک بچے کو کم از کم15قطرے پلائے جائیں تب کہا جا سکتا ہے کہ بچہ پولیوسے محفوظ ہے ، اس لیے والدین بچوں کو پولیو کی ہر مہم میں قطرے ضرور پلایا کریں ۔

مولانا انوار الحق حقانی نے کہا کہ پولیو کے حوالے سے ہمیشہ علماء کرام نے اپنا فرض ادا کیا ہے علماء کرام نے پولیو کے حوالے سے تمام متنازعہ سوالوں کے جوابات علمی اور فقہی حساب سے دیئے ہیں پولیو سے بچنے کے لیے پولیو مہم ضروری ہے اور اس میں علماء کرام سمیت تمام شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو کردار اداء کرنا چاہئے کیونکہ یہ ہمارے ملک کے بچوں کا معاملہ ہے اُنہوں نے کہا کہ پولیو میں کسی قسم کے کوئی غیر شرعی عوامل موجو د نہیں ہیں ۔

دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ویکسی نیٹرکی تعداد زیادہ ہونی چاہئے اورانکاری بچوں کے والدین کو زور کے بجائے پیار سے سمجھا کر اعتماد میں لیا جائے کیونکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے تحفظ کا معاملہ ہے، آخر میں سیمینار میں شریک سول سوسائٹی و دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور مقررین کے مابین سوال جواب کا سیشن بھی ہوا۔

اس موقع پر ایکسپریس نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کمیونیکیشنآفیسر پولیو ندیم رند نے بتایا کہ آج سے 12دن کیلئے پولیو مہم شروع کی جارہی ہے جس میں 4ماہ سے 5سال کے بچوں کو پولیو کے قطروں کی جگہ پولیو کے انجکشن لگا ئے جائیں گے ۔

اُنہوں نے کہا کہ آگاہی سیمینار کا مقصد بھی پولیو مہم کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہے سمینار میں سول سوسائٹی ، سیاسی ، علاقائی ، قبائلی عمائدین اور مختلف شبعہ زندگی سے وابستہ افرادنے شرکت کی ہے ، آگاہی سیمینار میں پولیو کے علاوہ ملیریا ، گردن توڑ بخار ، نمونیا، ڈائریا و دیگر بچوں کو لگنے والی بیماریوں کے بارے میں آگاہی دی گئی ہے۔