|

وقتِ اشاعت :   October 11 – 2019

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام شہدائے 10اکتوبر عالمو چوک کے 28ویں برسی کی مناسبت سے کلی عالمو میں تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا تعزیتی ریفرنس کے صدارت شہدائے عالمو چوک کے تصاویر سے کرائی گئی مہمان خاص پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری تھے شہدائے 10اکتوبر دنیا کے تمام محکوم و مظلوم قومی تحریکوں کیلئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والے اور شہدائے بلوچستان کی احترام کیلئے ایک منٹ کھڑے ہوکر خاموشی اختیار کی گئی۔

تعزیتی ریفرنس سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری، ضلعی جنرل سیکرٹری آغا خالدشاہ دلسوز ضلعی سیکرٹری اطلاعات یونس بلوچ ضلعی ہیومن رائٹس سیکرٹری ڈاکٹر رمضان ہزارہ اسد سفیر شاہوانی کامریڈ خدائے رحیم لہڑی میر زعفران مینگل، حمید بلوچ، مبارک علی ہزارہ محمد نور بلوچ نے خطاب کیا جبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض پارٹی کے یونٹ سیکرٹری کامریڈ عبدالحمید لانگو نے سرانجام دی۔

تلاوت کلام پاک کی سعادت باز محمد بلوچ نے حاصل کی مقررین نے شہدائے عالمو چوک شہید علی محمد لانگو، نیاز محمد بلوچ، اور ان کے دیگر ساتھیوں کے جانوں کا نذرانہ پیش کر نے پر زبردست انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ دیکر بلوچستان کی قومی سیاسی جمہوری جدوجہد کیلئے ایک اہم مقام حاصل کیا جنہیں کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

بلوچستان کی قومی جدوجہد ایسے فرزندوں کی قربانیوں سے بھری پڑی ہیں کہ جنہوں نے ہر مشکل نامساعد حالات میں سرزمین اور قومی حقوق کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے وطن اور قوم کے ساتھ عملی معنوں میں سچی وابستگی کا ثبوت فراہم کیا اور یہ ثابت کیا کہ یہاں کے فرزند اپنے مادر وطن قومی ننگ و ناموس بقاء سلامتی قومی تشخص وجود تہذیب و تمدن کے حفاظت کیلئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔

جو قومیں اپنے شہدا کے مشن آرمانوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بجائے ان کو فراموش کرتے ہیں تو وہ سب کچھ ہار جاتے ہیں بی این پی کو یہ اعزاز حاصل ہیں کہ وہ اپنے ان قومی اکابرین اور فرزندوں کی ناقابل شکست لازوال قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جنہوں نے قومی تحریک اور حقوق کیلئے جدوجہد کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا یہ پوری زندگی قید و بند تکالیف ازیتوں نامساعد حالات میں گزارتے ہوئے قومی تحریک سے ہمیشہ وابستہ رہے۔

مقررین نے کہا کہ شہدائے عالمو کو فزندوں کو ایسے حالات میں قتل و غارت گری ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا جبکہ وہ ایک سیاسی جمہوری ہڑتال میں مصروف عمل تھے تاکہ وہ مقتدر قوتوں کو یہ باور کراتے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہاں کے اقوام کو آپس میں دست و گریبان کرنے کیلئے اپنے توسیعی پسندانہ اور تعلیم دشمنی کی پالیسیوں کو فروغ دے رہے تھے۔

اس وقت بلوچستان نیشنل موومنٹ نے کوئٹہ میں زرعی کالج کی منتقلی کیلئے ایک سیاسی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی تھی اس کال کو ناکام بنانے کیلئے مقتدر قوتوں اور ان کے گماشتوں نے شہید علی محمد لانگو، اور نیاز محمد مینگل اور ان کے دیگر ساتھیوں پر فائرنگ کی اور انہیں قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا ہے اس وقت کے بی این ایم کا یہ ہڑتال کسی قوم زبان نسل طبقے علاقے کے خلاف ہرگز نہیں تھا بلکہ ان کا مطالبہ یہ تھا۔

کہ بلوچستان کے ان علاقوں میں زرعی کالج کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں زرعی زمیں موجود ہیں لیکن مقتدر قوتیں یہ بضد تھے کہ اس کالج کو ایک مخصوص علاقے میں منتقل کیا جائے تاکہ صوبے میں صدیوں سے آباد برادر اقوام میں آپس میں دست و گریبان کرکے نفرت تعصب تنگ نظری کو بڑاوا دے سکے مقررین نے گذشتہ دنوں پشین کے جلسہ عام میں پشتونخواہ میپ کی جانب سے بلوچ قوم کے خلاف نازیبا الفاظ ہرزہ سرائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ۔

بلوچوں کا ہزاروں سالوں پر محیط مہر گڑھ میرو میروانی کی تاریخ تہذیب و تمدن رسم ورواج بودباش مہر محبت پر مبنی اچھی انسانیت کی واضح مثال ہیں جوکہ پوری دنیا کے ماہر لسانیت اس بات پر متفق ہے کہ بلوچ تاریخی طور پر ایک ایسے زبان و علاقے سے ان کا وابستگی ہے جہاں انسانیت کی اقدار کو فروغ ملتا ہے جوخالصتاً اپنے وطن سرزمین سے گہری محبت اور سچی وابستگی رکھتے ہیں اور وہ ہر قسم کے تعصب نفرت تنگ نظری سے بالاتر ایک سیکولر روشن خیال تہذیب یافتہ قوم سے وابستگی رکھتے ہیں۔

مقررین نے کہا کہ بلوچ عوام ہر چیز کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بلوچوں نے انگریز کی دور حکومت سے لیکر آج تک جس چیز کو زیادہ اولیت اور اہمیت دیا ہے اور زیادہ احساس رہا ہے وہ ان کی سرزمین قومی ننگ و ناموس بقاء شناخت وجود اور سلامتی ہے انہوں نے اس کو چیڑنے والے ان تمام قوتوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے جدوجہد کیا ہے۔

مقررین نے گذشتہ روز نیشنل پارٹی کی جانب سے بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل اور پارٹی کے خلاف بیان کی بھی مذمت کی اور کہا کہ ان دونوں پارٹیوں نے اپنے دور حکومت میں جس طرح بلوچستان میں ظلم و جبر قتل و غارت گری تاریخی کرپشن کا بازار گرم کیا اس تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور وہ اپنے گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے اور بی این پی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور پذیرائی سے خائف ہوکر۔

مقتدر قوتوں کے اشاروں پر چل کر یہاں کے اقوام کے درمیان نفرت تعصب اور تنگ نظری اور اپنے دور حکومت کے تاریخی کرپشن نااہلی اقرباء پروری میرٹ کی پامالی سے توجہ ہٹانے کیلئے ناکام کوششوں اور سازشوں میں مصروف عمل ہیں عوام نے 25جولائی 2018ء کے الیکشن میں جس انداز میں انھیں مسترد کیا وہ سب کے سامنے عیاں ہیں اور یہ آج کہی بھی عوام کے سامنا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

کیونکہ انہوں نے ہمیشہ گروہی ذاتی پارٹی مفادات کی خاطر یہاں کے لوگوں کو استعمال کرکے اور مقتدر قوتوں سے گھٹ جوڑ کر اقتدار تک رسائی حاصل کرکے یہاں کے بلوچ پشتون ہزارہ آباد کار عوام کو فراموش کیا ان کے دور حکومت میں سانحہ 8اگست سول ہسپتال کوئٹہ میں جس بے دردی سے بلوچستان کے چیدہ چیدہ وکلاء برادری کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا۔

اور پی ٹی سی ٹریننگ سینٹر میں صوبے کے نوجوانوں کو جس بے دردی سے قتل و غارت گری کرایا گیا اور انہی کے دور حکومت میں صوبے کے غریب عوام کے پیسوں کو کرپشن کے نذر کرکے ان کے ٹینکوں بیکریوں اور کنوؤں سے برآمدگی ان کی عوام دشمن پالیسیوں کا منہ بولتاثبوت ہیں۔ان کی غلط سیاست ناکام طرز حکمرانی سے عوام تو کیا ان کے اپنے کارکن بھی ان سے نالاں اور مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں۔

جبکہ بی این پی گذشتہ کئی عشروں سے مقتدر قوتوں کے ناروا پالیسیوں کے سامنے بلوچستانی عوام کے حقوق کے دفاع کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے قربانیاں دیتے ہوئے چلے آرہے ہیں جس کی پاداش میں پارٹی کے نوے کے قریب رہنماؤں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا اور ان کا قتل صرف اور صرف قومی جمہوری جدوجہد پر مضبوط گرفت اور صحیح سیاست کی طرف عوام کو فکری شعوری نظریاتی طور پر منظم کررکھا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج بی این پی نیپ کے بعد ممتاز بزرگ قوم پرست سیاست دان سردار عطاء اللہ خان مینگل کی رہبیری میں اور سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں صوبے میں آباد تمام اقوام کی نمائندہ جماعت کی حقوق کی پاسبان جماعت کی شکل میں مضبوط فعال اور منظم ہوتے چلے آرہے ہیں۔

جنہوں نے بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے باوجود بھی شراکت اقتدار کا حصہ بننے کے بجائے بلوچستانی عوام کے اجتماعی قومی دیرینہ مسائل کو اولیت دی جوکہ یہاں کے عوام قوم اور سرزمین کے ساتھ سچائی جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے۔