|

وقتِ اشاعت :   October 19 – 2019

بلوچستان میں روزانہ ٹریفک حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں غیر محفوظ شاہراہیں تو ایک الگ مسئلہ ہیں مگر چلتے پھرتے بم گاڑیوں کی روک تھام کے حوالے سے بھی حکومتی سطح پر اقدامات دکھائی نہیں دیتے جس کے باعث خطرناک حادثات میں بڑے سانحات رونما ہوتے ہیں جن میں درجنوں لوگ جان سے دھوبیٹھتے ہیں۔

گزشتہ روزقلات کے علاقے بینچہ کے قریب قومی شاہراہ پر تیل برداری گاڑی اور کمشنر مکران ڈویژن کی گاڑی میں ہونے والے تصادم کے نتیجے میں کمشنر مکران ڈویژن کیپٹن (ر) طارق زہری، اپنے محافظ اور دیگردو افراد سمیت جھلس کرجاں بحق ہوگئے۔ قلات لیویز کے مطابق قلات سے پچاس کلومیٹر دور بینچہ کے قریب قومی شاہراہ پر پنجگور سے تیل لے جانیوالی تیل بردار گاڑی مخالف سمت سے آنے والی گاڑی سے ٹکرا گئی،حادثے کے بعد دونوں گاڑیوں میں آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں جھلس کر چار افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے اور ایک شدید زخمی ہو گیا۔

جاں بحق افراد کی لاشیں جھلس جانے کی وجہ سے ناقابل شناخت ہو گئیں۔کمشنر مکران ڈویژن طارق زہری کوئٹہ سے کراچی جارہے تھے کہ بینچہ کے قریب قومی شاہراہ پرپیش آنے والے اس ہولناک حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ واضح رہے کمشنر مکران ڈویژن کیپٹن (ر) طارق زہری مختلف انتظامی عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔

رواں سال کے دوران ہی کراچی سے پنجگور جانے والی مسافر کوچ اورٹرک میں تصادم کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 27 افرادجھلس کر جاں بحق جبکہ 16 افراد زخمی ہوگئے تھے اور یہ واقعہ بھی پیٹرول سے لدی مسافر گاڑیوں کی وجہ سے پیش آیا تھا،اس سے قبل 2015ء میں گڈانی موڑ پر پیٹرول اور ڈیزل سے لدی ہوئی مسافر کوچ حادثے کا شکار ہوئی جس کے نتیجے میں 35 افراد جاں بحق ہوئے جن کو لاوارث قرار دیتے ہوئے لسبیلہ میں دفنا دیا گیا، جن کی شناخت آج تک نہیں ہوسکی،ان میں سے بیشتر کا تعلق لسبیلہ سے اور ایک ہی خاندان سے تھا، دیگر مکران کے علاقے سے تھے۔بدقسمتی سے مسافر کوچ جو عوام کی سفری سہولیات کیلئے ہوتے ہیں۔

انہیں غیر قانونی پیٹرول اور ڈیزل کے کاروبار کیلئے استعمال کیاجاتا ہے،انتظامی سطح پراس حوالے سے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے جس کی وجہ سے اس قسم کاانسانی المیہ جنم لیتا ہے۔2015ء کی حادثہ رپورٹ میں واضح طورپر لکھا گیا تھا کہ کس طرح سے سرحد پار غیر قانونی پیٹرولیم مصنوعات بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں داخل ہوتی ہیں اورپھر انہیں ملک کے مختلف حصوں میں اسمگل کیاجاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی اسمگلنگ کس طرح آسانی سے کی جاتی ہے۔بلوچستان میں یہی صورتحال تفتان روٹ کا ہے جہاں سینکڑوں گاڑیاں روزانہ پیٹرولیم مصنوعات لیکر چلتی ہیں۔روزگار کے ذرائع کی کمی وجہ سے لوگ بحالت مجبوری پٹرول اور ڈیزل ڈھونے کا کاروبار کرتے ہیں۔

اگر چہ صرف اسی مقصد کے لیے مختص گاڑیوں کو اجازت دی جاسکتی ہے لیکن مسافر گاڑیوں میں پٹرولیم مصنوعات لوڈکرنے کی اجازت کسی صورت نہیں ہونی چائیے اور جو مسافر کوچ یا بس پٹرول اور ڈیزل لوڈ کریں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

یہ بات بلوچستان کے سابق ارکان اسمبلی بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ بلوچستان میں بعض لوگوں کا ذریعہ معاش سرحدی علاقوں سے پیٹرولیم مصنوعات کا کاروبار ہے مگر اس کیلئے قانونی راستہ بھی ہونا چاہئے اور اس طرح مسافر گاڑیوں میں پیٹرول اور ڈیزل لادنے سے یہ چلتے پھرتے بم بن جاتے ہیں جو بڑے سانحات کا سبب بنتے ہیں لہٰذا اس کی روک تھام کیلئے حکومتی سطح پر سخت فیصلہ کیاجائے اور پیٹرولیم مصنوعات کو مسافر گاڑیوں میں لے جانے پر پابندی عائد کی جائے تاکہ بڑے سانحات سے بچاجاسکے۔