|

وقتِ اشاعت :   October 30 – 2019

پاکستان اور بعض دوسرے ممالک کی کوششوں سے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات جلد بحال ہونے کا امکان ہے۔اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے آگاہی رکھنے والے سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پاکستان سمیت مذاکرات کی بحالی کیلئے کوشش کرنے دیگروالے ممالک چاہتے ہیں کہ افغانستان میں جاری 18 سالہ جنگ کا خاتمہ ہو،افغان طالبان اور امریکا کے درمیان گزشتہ مہینے معاہدہ تکمیل کے آخری مراحل میں تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی فوجیوں پر مسلسل حملوں کے باعث یہ امن عمل معطل کر دیا۔

جمعہ کو پاکستان ماسکو میں افغان امن عمل سے متعلق روس، چین اور امریکا کے مذاکرات میں شامل ہوا،وزارت خارجہ کے عہدیدار جنھیں ماسکو میں ہونے والے ان چار ملکی مذاکرات کی بریفنگ دی گئی، انہوں نے بتایا کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے مطابق امریکا افغان امن مذاکرات کی بحالی پر آمادہ ہے،تاہم اس سے قبل امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ طالبان کی جانب سے عسکری کارروائیوں میں کمی ہو،پاکستان،روس اور چین بھی متفق ہیں کہ مذاکرات کی بحالی سے قبل عسکری کارروائیوں میں کمی ہونی چاہیے تاکہ مذاکرات کیلئے فضا سازگار ہو سکے۔

دوسری جانب افغان امن عمل کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور دیگر اعلی حکام سے ملاقات کی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق زلمے خلیل زاد کی افغان حکام سے ملاقات کو نئی سیاسی تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے کیونکہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کردئیے تھے۔واضح رہے کہ افغان امن عمل میں امریکا اور طالبان کے وفود کے مابین متعدد ملاقاتوں کے بعد معاہدے کے نکات کو حتمی شکل دی جاچکی تھی، تاہم محض معاہدے پر دستخط سے پہلے افغانستان میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر نے ٹوئٹر پر طالبان سے تمام مذاکرات کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔اس سلسلے میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی افغان صدر سے ملاقات کے بعد قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ امریکی صدر ایک مرتبہ پھر منسوخ کیے گئے مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

ادھر افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صادق صادقی نے بتایا کہ زلمے خلیل زاد نے افغان صدر سے ملاقات میں افغانستان میں امن کے لیے افغان حکومت کے کردار سے متعلق اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا۔تمام معاملے پر افغان صدارتی دفتر کی جانب سے کہا گیا کہ زلمے خلیل زاد کا مقصد واضح تھا کہ اشرف غنی کو افغان امن عمل سے متعلق اپنی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے علاوہ ازیں افغانستان کے سیاسی رہنما نے زلمے خلیل زاد کی کابل میں موجودگی کی تصدیق کی۔نیشنل اسلاملک فرنٹ افغانستان کے رہنما سید حامد گیلانی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ انہوں نے زلمے خلیل زاد اور ان کی ٹیم سے ملاقات میں امن عمل اور صدارتی انتخاب سے متعلق تبادلہ خیال کیا۔

اس ضمن میں کابل میں امریکی سفارتخانے نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا لیکن حکام نے بتایا کہ زلمے خلیل زاد کا اگلہ دورہ پاکستان کا ہوسکتا ہے۔بہرحال امریکہ کا دوبارہ افغان امن عمل پر غور کرنا ایک اچھی خبر ہے کیونکہ عرصہ دراز سے افغانستان میں جاری شورش کے باعث خطے کے امن وامان اور معاشی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جب تک افغانستان کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہوگا تب تک خطے میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا۔

پاکستان کی جانب سے بارہا افغان مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہر حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جبکہ روس اور چین کا شامل ہونا بھی انتہائی مثبت عمل ہے کیونکہ دنیا کے اہم ترین ممالک کا افغان امن عمل میں کردار مذاکرات کو تیزی سے آگے بڑھائے گا۔ افغانستان کا مسئلہ طاقت سے حل کرنے کے نتائج سامنے ہیں تمام فریقین کو طاقت کی بجائے بات چیت پر زور دینا چاہئے تاکہ امن عمل میں تیزی آئے اور افغانستان سمیت خطے میں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوسکے۔