تربت: بلوچی اور اردو زبان کے نامور شا عر عطاء شاد کی 23 ویں برسی انکے آبائی شہرتربت میں بھی عقیدت واحترام کیساتھ منائی گئی،اس سلسلے میں عطاء شاد ڈگری کالج لٹریری سوسائٹی کے زیر اہتمام گورنمنٹ بوائز عطاء شاد ڈگری کالج تربت کے آڈیٹوریم میں تقریب منعقد کی گئی۔
تقریب میں نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اورسابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،بلوچ دانشور پروفیسر ڈاکٹر بدل خان بلوچ، کالج پرنسپل،لیکچرار اور طلباء نے عطاء شاد کی شاعری اورقومی خدمات پر تقاریر کیں اور اسے خراج عقیدت پیش کیا،تقریب سے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ عطاء شاد ایک شاعر، معاشرے کا اساس ترین اور تجربہ رکھنے والے شخصیت تھے اور بلوچی زبان کا ایک چمکتا ستارہ تھا جس نے اپنی زندگی غربت اور کسمپرسی میں گزار دی۔
انھوں نے کہا کہ عطاء شاد نے شاعری کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا تھا اسکی ہر شعر میں قوم دوستی شامل تھی اور ایک پیغام تھا عطاء شاد کو سمجھنے کیلئے عطاء شاد کو پڑھنا ضروری ہے کیوں کہ انکی زندگی انکے لکھی گئی کتابوں اور شعروں میں بند ہے انھوں نے کہا کہ عطاء شاد صرف ایک شاعر نہیں تھے بلکہ وہ ایک اینکر پرسن اور ڈائریکٹر بھی تھی عطاء شاد زندگی کی ہر پہلو پر جانکاری رکھتے تھے اور انکو اپنے شعروں مین بیان کرتے تھے بلوچی شاعری کے علاوہ وہ اردو ادب میں بھی عبور حاصل تھا۔
انھوں نے کہا کہ خوش قسمت ہیں وہ جو عطاء شاد پر پی ایچ ڈی کرتے ہیں اور عطاء کی روح کو سمجھتے ہیں پروفیسر ڈاکٹر بدل خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عطا ایک ایسے شاعر تھے جن کی شاعری میں قومی شناخت ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ عطا نے اپنے احساسات ک اپنی شاعری میں سمو کر لوگوں کی رہنمائی کی ہے اور آج بھی کی شاعری لوگوں کے لیے مشعل ہے علاوہ ازیں عطا ء شاد کی شاعری میں مزاحمتی فکر، سیاسی و سماجی بیداری اور محبت کے اظہار کا جزبہ پا یا جاتاہے۔
عطاء شاد جد ید بلوچی شاعری کے بانی ہیں۔ عطاء شاد کی شاعری بلوچی زبان اور ادب کا اثاثہ ہے۔ عطاء شاد کے ادبی ورثہ پر تحقیق سے بلوچی زبان اور ادب کو مز یدفروغ دیا جاسکتا ہے۔ ان خیالات کااظہار بلوچی زبان کے معروف ادباء نے بلوچی زبان کے شاعر، نقاد، محقق اور ڈرامہ نگار عطاء شاد کی 23ویں برسی کے موقع پر گوادر اکیڈمی آف لٹر یچر (گال) کے زیراہتمام آرسی ڈی سی گوادر کے سید ظہور شاہ ہاشمی آڈیٹوریم میں منعقدہ تقر یب سے خطاب کے دوران کیا۔
مقالہ پیش کرنے والوں میں پر وفیسر اے آرداد، منیر مومن، پر وفیسر صادق صباء، سلیم ہمراز، الطاف بلوچ، اسلم تگرانی اور برکھا بلوچ شامل تھے۔ انہوں نے عطاء شاد کی فن اور زندگی کا احاطہ کر تے ہوئے بتا یا کہ عطاء شاد بلوچی زبان کے عظیم شاعر گزرے ہیں بلوچی زبان کے خوبصورت لب وہ لہجہ کا یہ شاعر اپنی نابغہ تخلیق میں کمال کا شاعر رہاہے جس کی شاعری کسی ایک موضوع پر محدود نہیں بلکہ اس میں وسعت پز یری کی ایک گہرائی پائی جاتی ہے۔
جس میں مزاحمتی فکر، سیاسی و سماجی بیداری اور محبت کے اظہار کا جزبہ پا یا جاتاہے جس سے اندازہ لگا یا جاسکتاہے کہ عطاء شاد کتنے بڑے پایہ کے ادیب تھے۔ انہوں نے کہا کہ عطاء شاد کو جد ید بلوچی شاعری کا بانی بھی کہا جاتاہے جس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عطاء شاد نے اپنی شاعری میں ایسے ضخیم الفاظ کو استعمال کیا ہے جو شاید پہلے کسی نے استعمال کئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عطاء شاد نہ صرف بلوچی ادب پر دسترس رکھتے تھے بلکہ ان کی اردو شاعری کی صنف بھی قابل تعر یف ہے جس نے قومی سطح پر سب کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عطاء شاد نے اپنی شاعری سے بلو چی زبان اور ادب کی ترقی اور فروغ کے کام کو بھی تقو یب بخشی ہے عطاء شاد نہ صرف شاعر تھے بلکہ وہ بیک وقت محقق اور ڈرامہ نگار بھی گزرے ہیں اس کثیر الجہتی اسلوب نے عطاء شاد کا مقام بہت بلند کیا ہے۔
جس کو کسی بھی صورت بھلایا نہیں جاسکتابلوچی اور اردو زبان کے قد آور شاعر عطا شاد کی تئیسویں برسی کی مناسبت سے بلوچستان اکیڈمی تربت کے زیر اہتمام لکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں نامور ادیب اور نقاد پروفیسر غنی پرواز نے عطا شاد کے شعری فن پر لکچر دیا۔ اس موقع پر بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کے چیئرمین ممتاز یوسف، بلوچستان اکیڈمی تربت کے چیئرمین عبید شاد اور وائس چیئرمین ڈاکٹر غفور شاد نے بھی خطاب کیا۔
جبکہ قدیر لقمان نے نظامت کے فرائض ادا کئے۔ پروفیسر غنی پرواز نے کہا کہ عطاشاد شاعری کے بلند درجے پر فائز ہیں ان جیسے تخلیق کار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کا بلوچی کے کسی شاعر سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ جن شاعروں کو عطا شاد سے بڑا شاعر بناکر پیش کیا گیا ہے درآصل وہ خود عطا کے زیر اثر ہیں اگر عطا نہ ہوتے تو وہ بھی پیدا نہ ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ عطا شاد ایک روایت شکن شاعر ہیں۔ عطا سے پہلے روایتی شاعری کا چلن تھالیکن عطا نے آکر غیر روایتی شاعری کو رواج دیا۔ انہوں نے کئی ایسے نئے تجربات کئے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کئے تھے۔ اسی روایت شکنی کی و جہ سے نئی چیزیں سامنے آگئیں۔ اکثر شعرانے عطا کی شاعری سے متاثر ہوکر ہی شاعری کی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں محبت اور انقلاب کو باہم ملا دیا ہے۔