|

وقتِ اشاعت :   April 15 – 2020

کورونا کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پوری دنیا خوف میں مبتلا ہے کرہ ارض پر بسنے والے کروڑوں لوگوں پر خوف طاری ہے اور لوگ اپنی جان کی امان پاکر اپنے اپنے گھروں میں مقید ہیں جہاں ساری دنیا اس عالمی وباء سے لڑرہی ہے تو پاکستان بھی اس موذی وباء سے متاثر ہے جس کے بعد پورے ملک کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں او پی ڈی بند کردیئے گئے ہیں،اور دیگر بیماروں کا کوئی پرسان حال نہیں. عالمی وباء کورونا کی ہلاکت خیزیاں اور ملک میں اس حوالے سے سہولیات کی عدم دستیابی کو دیکھکر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس اسٹاف مریضوں کے علاج سے انکاری ہیں. حفاظتی لباس اور کٹس نہ ملنے پر احتجاج بھی کررہے ہیں۔

یعنی ہر طرف خوف رقصاں ہیں، پر رونق شاہراہیں اور گلیاں سنسان ہوگئے اور لاکھوں لوگوں نے اپنے تمام سماجی تعلقات منقطع کرکے گھر پر بیٹھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مگر خوف کے اس ماحول میں گوادر کا ایک مرد مجاہد اور مسیحا سسکتی اور بلکتی دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش نظر آتا ہے۔

یہ شخصیت ڈاکٹر عزیز شمبے ہیں جو اپنے کلینک میں دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. 62 سالہ ڈاکٹر عزیز شمبے نے گوادر کے پسماندہ ساحلی بستی پشکان میں آنکھ کھولی. کراچی میں تعلیم حاصل کی. زمانہ طالب علمی میں ہی طلبہ سیاست میں سرگرم رہے ان کا شمار بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او کے فعال کارکنوں میں رہا ہے۔

ڈاکٹر عزیز نے بولان میڈیکل کالج بلوچستان کوئٹہ میں ایم بی بی ایس کی سند حاصل کی اور وہاں سے اپنا تعلیمی کیریئر مکمل کرنے کے بعد اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا. ان کی پہلی پوسٹنگ بطور میڈیکل افسر دشت کھڈان ضلع کیچ میں ہوئی اس دوران ان کا تبادلہ کھڈان سے بل نگور کیا گیا جس پر کھڈان کے مکین سراپا احتجاج بن گئے. کیونکہ کھڈان میں تعیناتی کے دوران ڈاکٹر عزیز نے دکھی انسانیت کی بلا تفریق خدمت کی اس خصوصیت کی وجہ سے علاقہ مکین اس مسیحا کے گرویدہ بن گئے اور ان کو اپنے پاس سے دور کرنا نہیں چاہ رہے تھے کھڈان کے مکینوں کے بے حد اصرار پر ڈاکٹر عزیز کا تبادلہ روک دیا گیاکھڈان میں ایک سال خدمات کی سرانجام دہی کے بعد ان کا تبادلہ گوادر ہسپتال میں کیا گیا۔

گوادر تعیناتی کے بعد وہ ہفتہ میں ایک بار اپنے آبائی علاقے پشکان جاکر مریضوں کا علاج بھی کرتے تھے. ڈاکٹر عزیز نے طب کے پیشہ جس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دکھی انسانیت کی ہی خدمت کی جائے لہذا ڈاکٹر عزیز اس کا عملی نمونہ بھی پیش کرتے رہے. ڈاکٹر عزیز نے دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کو اپنا شعار بنایا وہ کبھی سربندن تو کبھی دوائیوں کا گنچہ اٹھاکر دیہی علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگاکر مریضوں کو اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. ڈاکٹر عزیز کی ملنسار شخصیت اور دکھی انسانیت کے خدمات کے پیش نظر وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی گوادرہسپتال میں اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کرتے رہے ہیں.

اب جب کہ ہر طرف کورونا وائرس کا خوف منڈلاتا ہوا نظر آتا ہے لیکن اس مشکل دور میں بھی انسانیت کا یہ مسیحا ڈاکٹر عزیز نہ صرف دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔بلکہ سماجی خدمات کی سر انجام دہی میں بھی ڈاکٹر عزیز ہر اول دستہ میں نظر آرہے ہیں۔

ڈاکٹر عزیز کہتے ہیں کہ طب کے پیشہ کا بنیادی اصول یہی ہے کہ مریض کو کسی بھی ناگزیر اور ہنگامی حالات میں طبی امداد فراہم کی جائے. ڈاکٹر کی پہلی ترجیح انسانی جان بچانا ہوتا ہے. یہی جزبہ ہمیں اپنے کام سے نہیں روک سکتا. ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ حالات کیسے ہیں اور ہمارے پاس وسائل کیا ہیں ہمیں بس دکھی انسانیت کو سہارا دینا ہے۔

ڈاکٹر عزیز نہ صرف اپنے پیشہ سے مخلص ہیں بلکہ کورونا ایمرجنسی کے دوران دیہاڑی دار، مزدور پیشہ اور محنت کش افراد سمیت دو وقت کی روٹی کے لئے ترستے ہوئے غریبوں اور مساکین کے لئے بھی فکر مند دکھائی دیتے ہیں. لاک ڈاؤن کے دوران وہ اپنی پیشہ ورانہ خدمات کی سرانجام دہی کے علاوہ سماجی خدمت کا بھی بیڑا اٹھا چکے ہیں۔

ڈاکٹر عزیز نے اپنے ھم خیال دوستوں کے ساتھ ملکر گوادر ویلفیئر کمیٹی کے نام سے ایک سماجی تنظیم تشکیل دی ہے جو گوادر کے مخیر حضرات اور صاحب حیثیت لوگوں کی مدد سے لاک ڈاؤن کے دوران بلا تفریق و رنگ نسل اور مذہبی تفریق کے ضرورت مندوں کا سہارا بن رہے ہیں اب تک ڈاکٹر عزیز کی قیادت اور رہنمائی میں سینکڑوں ضرورت مند خاندان جن کا لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزگار متاثر ہوا ہے ان کو راشن پہنچایا جارہا ہے۔

انسانیت کو ڈاکٹر عزیز جیسے مسیحا اور عوامی خدمت گزار پر ہمیشہ ناز رہے گا. جب تک دنیا میں اس جزبہ کے حامل لوگ موجود ہیں انسانیت بے سہارا نہیں ہوگی ہم دعاگو ہیں کہ ڈاکٹر عزیز اور ان کے رفقائے کار کو اللہ پاک مزید ہمت اور استحکامت عطاء فرمائے. آمین.