|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2020

وہ جنوبی فرانس میں ایک شاندار گھر میں رہتے تھے اور ان کے پوری دنیا میں گھر تھے۔ یہ ایک ایسی دلکش و حسین زندگی تھی جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ برطانوی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی الیگزینڈرا ٹولسٹوئے کو سنہ 2008 میں اس وقت اپنے خوابوں کا شہزادہ ملا جب ان کی ایک روسی ارب پتی سرگئی پْگاچیو سے ملاقات ہوئی۔ پھر سب کچھ ایک ڈراؤنے خواب میں بدل گیا۔ اس کہانی کا آغاز پانچ برس پہلے ہوتا ہے۔

جب وہ دونوں لندن میں اپنے تین بچوں کے ساتھ ایک پرتعیش زندگی گزار رہے تھے۔ ’ہمارے پاس ایک پرسنل اسسٹنٹ، دو ڈرائیور، ایک انگلش آیا، ایک روسی آیا اور بچوں کے ہوم ورک کے لیے ایک فرانسیسی ٹیچر تھے۔ ’جب میرا پہلا بچہ پیدا ہوا تو ہم لندن شفٹ ہو گئے اور پھر ہم نے اپنے پڑوس والا گھر خرید لیا۔‘ الیگزینڈرا ٹولسوئے کا بچپن بھی پرتعیش تھا۔ ان کے والد مشہور ناول نگار لیو ٹولسٹائے کے دور کے رشتہ دار تھے۔ الیگزینڈرا نے بورڈنگ سکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر لندن میں ایک بروکر کے طور پر کام شروع کیا۔ انھوں نے بہت جلد نوکری چھوڑ کر اپنا ٹریول کا کاروبار شروع کیا۔

سابق سوویت یونین، ترکمانستان، قرغزستان میں سیر کرنے لگیں اور اس دوران انھوں نے ایک گھڑ سوار سے شادی کر لی۔ ان کی یہ شادی زیادہ قائم نہ رہ سکی۔ جب الیگزینڈرا اور ان کے شوہر مشکل سے اپنی زندگی گزار رہے تھے تو الیگزینڈرا کی زندگی میں زرہ بکتر پہنے ایک بادشاہ آیا۔ ان کی ملاقات اس وقت ہوئی جب سرگئی پْگاچیو نے الیگزینڈرا ٹولسوئے کو انگلش پڑھانے کے لیے ٹیوٹر رکھا۔

پہلی نظر میں محبت

ایک فریم میں الیگزینڈرا ٹولسوئے اور سرگئی پگاچف کی تصویر آویزاں ہے۔ سرگئی پگاچف الیگزینڈرا کے بائیں جانب بیٹھے ہیں، نیلی آنکھیں، تراشی ہوئی مونچھیں اور داڑھی۔ تصویر میں یہ جوڑی بہت پرسکون نظر آ رہی ہے۔ الیگزینڈرا ٹولسٹوئے کہتی ہیں ’جب میں پہلی مرتبہ سرگئی سے ملی میں فوراً ان کی محبت میں مبتلا ہو گئی۔ یہ اتنا رومانوی تھا اور میں نے زندگی میں پہلی بار کسی مرد کے ساتھ ایسا تعلق محسوس کیا تھا۔

شاہانہ زندگی

الیگزینڈرا کہتی ہیں ’ابتدا میں زندگی اتنی حسین تھی کہ اس سے بہتر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘ سرگئی پگاچیو سے ملاقات کے پہلے سال الیگزینڈرا کا پہلا بچہ پیدا ہوا اور ان کی زندگی ماسکو، لندن، یا کریبئین کے عالیشان گھروں میں گزری۔ ‘وہ اپنا کریڈٹ کارڈ میرے حوالے کرتے، میں شاپنگ کرتی، جو میرے من میں آتا میں کرتی۔ میرے پاس پرائیوٹ جیٹ بھی تھا۔

بس مجھے پیک اپ کرنا ہوتا تھا اور جہاں میرا دل کرے میں چلی جاتی تھی۔‘ الیگزینڈر اور سرگئی اپنا وقت لندن کے بارہ ملین کے گھر، یا ہارٹفورڈ شائر میں 200 ایکڑ پر پھیلی ریاست، یا پھر کیریبئن میں سمندر کے کنارے 40 ملین ڈالر کے گھر میں گزارتے تھے۔ الیگزینڈرا کہتی ہیں کہ ان کے اچھے دن جاری تھے لیکن روس میں ان کے شوہر کے حالات کچھ خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ صدر پوتن کے سرگئی پْگاچیو جیسے روسی امرا کے ساتھ تعلقات خراب ہونا شروع ہو چکے تھے۔

پوتن کا بینکر
کیمونزم کے بعد کے روس میں سرگئی پْگاچیو کی دولت پندرہ ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ ان کے کاروباروں میں کوئلے کی کان، شپ یارڈ، مشہور ڈیزائنر برانڈز اور روس کا سب سے بڑا پرائیویٹ بینک تھا۔ سرگئی پْگاچیو کہتے ہیں کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے قریب تھے اور وہ ہمیشہ چھٹیاں اکٹھی گزارتے تھے۔ جب سرگئی پْگاچیو کے بینک نے روسی حکومت کو قرضہ دیا تو سرگئی پْگاچیو کو پوتن کا بینکر کہا جانے لگا۔

لیکن سرگئی پْگاچیو کہتے ہیں کہ پوتن کو ان کا الیگزینڈرا ٹولسٹوے کے ساتھ تعلق پسند نہیں تھا۔ سرگئی پْگاچیو کا کہنا ہے ’صدر پوتن بہت حیران تھے۔ ایک بار انھوں نے کہا کیوں، وہ تو انگلش ہے، حیرانی کی بات ہے کہ 140 ملین لوگوں کی آبادی میں آپ کو شادی کے لیے کوئی نہیں ملا۔‘

’ہم آپ کے بیٹے کی انگلیاں کاٹ کر لا سکتے ہیں‘

سنہ 2006 میں روس نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت اس کے ایجنٹوں کو یہ اختیار مل گیا کہ ریاست کے دشمن، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں، ان کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تھوڑے عرصے بعد سرگئی پْگاچیو روسی ایجنٹوں کے ریڈار پر آ گئے۔ سنہ 2008 میں پْگاچیو کا بینک مشکلات کا شکار ہو گیا اور روسی ریاست نے اسے بچانے کے لیے ایک ارب ڈالر دیے۔ حکومتی بیل آؤٹ کے باوجود سرگئی پْگاچیو کا بینک دو برس میں ختم ہو گیا۔ سرگئی پْگاچیو کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے بینک کو ایک سال پہلے بیچ دیا تھا لیکن روسی حکومت اس فروخت سے متفق نہیں تھی۔

سرگئی پْگاچیو کا کہنا ہے ’روس کی ڈیپازٹ انشورنس ایجنسی (ڈی آئی اے) نے مجھے ایک ریستوران میں بلایا اور کہا آپ کو 350 ملین ڈالر ادا کرنے ہیں۔ ہم آپ کو آپ کے خاندان کو مار بھی سکتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم آپ کے بیٹے کے ہاتھ کی انگلیوں کو کاٹ کر آپ کے سامنے لا سکتے ہیں۔‘ ڈی آئی اے کے اہلکار سرگئی پْگاچیو سے وہ ایک ارب ڈالر مانگ رہے تھے جو روسی ریاست نے ان کے پرائیویٹ بینک کو بچانے کے لیے بیل آؤٹ دیا تھا۔ ڈی آئی اے تردید کرتی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ کبھی پیش آیا تھا۔ اگلے چند برسوں میں روسی ریاست کے مخالفین مسلسل ختم ہوتے رہے۔

روسی ریاست کے مخالفین کی موت

سنہ 2012 میں روس کے امیر شخص الیگزینڈر پرپیلچنی سرے میں اپنے محل کے قریب جاگنگ کرتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔ سنہ 2013 میں صدر پوتن کے مخالف بورس بریزوسکی کی انگلینڈ کے علاقے ایسکوٹ میں اپنے گھر میں موت ہوئی۔ سنہ 2015 میں روس کے حزب اختلاف کے نمایاں رہنما بورس نیمتسو کی ماسکو میں گولی لگنے سے موت ہوئی۔

سرگئی پْگاچیو اور روسی ریاست آمنے سامنے

روس کی ریاست سرگئی پْگاچیو کے گرد گھیرا تنگ کر رہی تھی۔ روس نے سنہ 2015 میں ایک ارب ڈالر کی ریکوری کے لیے برطانوی عدالت میں سرگئی پْگاچیو کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے روسی ریاست کے حق میں فیصلہ دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ پْگاچیو کو ایک ارب ڈالر روس کو دینے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ روسی حکومت کی طرف سے سرگئی پْگاچیو کے بینک کو ایک ارب ڈالر کا جو بیل آؤٹ ملا، وہ انھوں نے سوئس بینک اکاؤنٹ میں جمع کیا اور پھر وہاں سے انھیں کئی اکاؤنٹس میں ڈالا اور پھر یہ رقم کہیں غائب ہو گئی۔ پْگاچیو کے دنیا بھر میں اثاثے منجمند کر دیے گئے اور ان سے ان کا پاسپورٹ بھی لے لیا گیا۔

سرگئی پْگاچیو برطانیہ سے فرار ہو کر فرانس میں اپنے محل میں پہنچ گئے جہاں وہ اب بھی مقیم ہیں۔ سرگئی پگاچیو نے روسی حکومت کے خلاف ان کا کاروبار تباہ کرنے کے الزام میں ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا ہے۔ جب 2016 میں الیگزینڈرا کے شوہر مسلسل چھپتے پھر رہے تھے اور ان کے خاندان کا مسلسل پیچھا کیا جا رہا تھا تو انھیں محسوس ہوا کہ ان کی اور ان کے بچوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ سنہ 2016 میں الیگزینڈرا کے اپنے شوہر سرگئی پگاچیو کے ساتھ تعلقات بھی مشکلات کا شکار ہو چکے تھے۔ جب سرگئی پگاچیو نے الیگزینڈرا سے کہا کہ ان کے خاندان کو مستقل فرانس منتقل ہو جانا چاہیے تو الیگزینڈرا نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔

اور فرانس منتقل ہونے سے انکار کیا۔ وہ کہتی ہیں ’سرگئی پگاچیو نے غصے میں آ کر مجھ پر حملہ کیا، انھوں نے بچوں کو علیحدہ کمرے میں بند کر دیا اور میرے اور بچوں کے پاسپورٹ کو محفوظ لاکر میں بند کر دیا۔ مجھے لگا کہ ہم غیر محفوظ ہیں۔‘ الیگزینڈر ٹولسٹوے سنہ 2016 میں اپنے بچوں کے ہمراہ فرانس کے محل سے نکلیں اور پھر کبھی واپس وہاں نہیں گئیں۔

’اس وقت سے مجھے اور میرے بچوں کی مالی مدد بند کر دی گئی ہے‘۔ الیگزینڈرا ٹولسٹوے آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ کہتی ہیں ’کچھ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تمھاری زندگی کتنی آسان ہے، تمھارے بچے کتنے خوش قسمت ہیں، وہ کتنے مراعات یافتہ ہیں۔ ’وہ نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ مراعات یافتہ پرورش ایک محفوظ اور خوش خاندان میں رہنا ہے، جو ایک ساتھ رہتا ہو۔‘

الیگزینڈرا ٹالسٹوے

ٹولسٹوے کتہی ہیں کہ روسی ریاست نے ان کا خاندانی گھر چھین لیا ہے اور اسے بیچنے کے لیے مارکیٹ میں رکھا جا چکا ہے۔ الیگزینڈرا کہتی ہیں کہ انھیں پیشکش ہوئی کہ اگر وہ اس گھر میں ایک سال کے لیے رہنا چاہتی ہیں تو پھر وہ سرگئی سے نہ تو کسی قسم کی دیکھ بھال کا تقاضہ کریں گی اور نہ ہی ان سے اپنا ادھار مانگیں گیں۔ وہ کہتی ہیں ’مجھے خوف ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں اور ہمارے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ بھی نہیں۔ یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔‘

روس اور برطانیہ کے تعلقات بدترین سطح پر

سنہ 2018 میں روس کے ایک سابق ڈبل ایجنٹ سرگئی سکریپال کو برطانیہ میں زہر دینے کے واقعے کے بعد برطانیہ میں گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والی پراسرار اموات کو نئے زاویے سے دیکھا جانے لگا ہے۔ برطانیہ کی وزارت داخلہ کو کہا گیا ہے کہ ایسے چودہ کیسز کا ازسر نو جائزہ لے جن میں متاثرہ افراد کی بظاہر دل کا دورہ پڑنے، خودکشی، حادثے یا قدرتی انداز میں اموات ہو چکی ہیں۔ کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ ریاست کی ایما پر ان لوگوں کو برطانیہ کی گلیوں میں قتل کیا گیا ہے۔ برطانیہ اور روس کے تعلقات بہت خراب ہو چکے ہیں۔

’میں اپنیآخری 70 ملین تک پہنچ چکا ہوں‘

سرگئی پگاچیو اب اکیلے فرانس میں اپنے محل میں رہائش پذیر ہیں۔ سرگئی پگاچیو کا کہنا ہے کہ روسی حکومت نے انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا اور اب وہ اپنی دولت کے آخری 70 ملین ڈالر کو خرچ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’مجھ اپنے بچوں سے پیار ہے اور مجھے امید ہے کہ مسقبل قریب میں وہ اپنے باپ کے ساتھ ہونے پر خوش ہوں گے اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘ الیگزینڈرا اپنا زیادہ وقت بچوں کے ساتھ آکسفورڈ شائر میں اپنے کاٹیج میں گزارتی ہیں۔ ان کے بچوں نے سنہ 2016 کے بعد سے اپنے والد کو نہیں دیکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’میں ان کو بتاتی ہوں کہ تمھارے والد کو اپنے حالات کو ٹھیک کرنا ہے۔

اور جب تم بڑے ہو جاؤ تو خود جا کر اپنے والد کو ڈھونڈ لینا۔‘ الیگزینڈرا ٹولسٹوے نے اپنا ٹریولنگ کا کاروبار ایک بار پھر شروع کر دیا ہے اور اس کے علاوہ وہ تواتر سے روس کے دورے کرتی رہتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’مجھے روس سے محبت ہے۔ حیرت انگیز طور پر روسی حکومت کے ساتھ میرے تعلقات سرگئی سے زیادہ اچھے ہیں۔‘ الیگزینڈرا ٹولسٹوے نے شاہانہ اندازِ زندگی کو خیر باد کہہ دیا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’مجھے ان تمام چیزوں سے نفرت ہو گئی ہے۔ یہ سب اس زندگی سے جڑی ہوئی ہیں جو مجھے پسند نہیں ہے۔ ’میرے سامنے پوری زندگی پڑی ہے۔ میں اب دوبارہ ان چیزوں کو کر سکتی ہوں جو مجھے پسند ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں ’سرگئی یہ سمجھتے تھے کہ میں ان کے ساتھ رہنے کے لیے ترسوں گی اور ان کی دولت کی وجہ سے میں ان کا پیچھا کروں گی۔ ’درحقیقت میں اس سب سے نکل آئی ہوں اور مجھ میں ایسا کرنے کی ہمت تھی۔‘