کرونا وائرس نے معاشی طور پر دنیا کی معیشت کو تہ وبالا کردیا ہے۔دنیا کی مضبوط معاشی طاقتیں بھی اپنے آپ کو اس سے نہ بچاسکیں۔وائرس کی وجہ سے جہاں لوگ زندگی کو بچانے کے لیے گھروں میں قید ہیں۔ اس کے معاشی اور نفسیاتی اثرات اس سے کئی گناہ زیادہ ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کی کمزور معیشت پر اس کے اثرات زیادہ خطرناک ہیں۔وطن عزیز ایک طرف قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام فاقوں پر مجبور ہے۔ ملک کے اندر غریب مڈل کلاس اور تاجروں کو یکساں طور پر کنگال کررہا ہے۔
سب سے زیادہ متاثر ہونے والا غریب طبقہ ہے جو ماہ صیام میں افطاری کے کھانے سے محروم ہوچکا ہے۔ ملک کے اندر کچھ فیاض طبیعت لوگ ان کی مدد کرنے میدان عمل میں اترے ہیں۔دوسری جانب سفید پوش طبقہ جو اپنی عزت النفس کے ساتھ قناعت کے دولت سے مالا مال اپنی زندگی گزاررہا تھا،وہ شدید متاثر ہوا ہے۔ کام کاج نہ ہونے کی وجہ سے ان کے گھروں میں فاقہ پڑھ چکے ہیں۔یہ طبقہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریز کرتا ہے۔اپنی انا اور خودداری کی وجہ سے سخت تکلیف کی حالت میں بھی کسی سے مدد لینے سے ہچکچاتے ہیں لیکن معاشی بد حالی کی وجہ سے ذہنی کوفت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں سفید پوش گھرانے کا دل خراش واقع رونما ہواجس میں ایک شخص اپنے گھر کا سامان اٹھا کر محلے کی مسجد کے پاس فروخت کرنے کے لیے رکھتا ہے کیونکہ اس کے گھر میں فاقے ہیں اور اس کے بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں۔ لوگوں کا جم غفیر اس کے گرد جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے اوراس کے گھر کے گھریلو سامان میں سے پانی کا کولر، چارپائی، پلیٹیں، وغیرہ ارزاں نرخوں پر خریدنا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی اللہ والے کی نظر اس پر پڑھ جا تی ہے اور اس کو کہتاہے کہ ٓاپکی مدد کی جائیگی آپ اپنا سامان گھر واپس لے جائیے لیکن اس وقت تگ آدھا سامان بک چکا ہوتاہے۔
مجبور سفید پوش سے سامان ارزاں نرخوں پر خریدنے والے معزز عوام ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ سنگدلانہ رویہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مخیر حضرات اس طبقہ کی مدد کریں۔ اپنے محلے میں ایسے افراد کی نشاندہی کر کے چھپکے سے انکی مدد کی جائے تاکہ ان کا بھرم برقرار رہے اور عزت نفس مجروع نہ ہو،جو انکا بڑا سرمایہ ہے۔ اگر خدانخوستہ لاک ڈاؤن کا سلسلہ مزید بڑھا اور مڈل کلاس لوئر کلاس میں تبدیل ہوتی گئی توآنے والے دنوں میں ملکی معیشت پر منفی اثرات نمایاں ہونگے۔دنیا کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا طبقہ بھی معاشی بد حالی کی جانب گامزن ہے۔ تاجروں کے سرمایہ کی گردش سے ہی باقی طبقوں کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔
ایک مقامی اخبار کی خبر کے مطابق کراچی پورٹ پر موجود بین الاقوامی شپنگ کمپنیاں روزانہ ڈی ڈکشن کے چارجز کے نام پر کروڑوں روپے غیر ملکی اکاؤنٹ میں منتقل کررہی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر فی کنٹینر دس ہزار روپے جرمانے کے نام پر کاٹے جارہے ہیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق وزارت شپنگ اس معاملہ پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ایک طرف تجارت کی بندش اور دوسری جانب لیبرز کو تنخواہوں کی ادائیگیاں، اوپر سے جرمانے کی کٹوتیاں، تاجروں کو ذہنی مریض بنارہا ہے۔ جناب وزیراعظم صاحب کو ان تاجروں کے حساس معاملے پر نظر کرم کرنا چاہیے۔
کیونکہ ان کی وجہ سے ہی ملک کی معیشت کا پہیہ چلتا ہیے۔ اگر تاجر برادری کو ذہنی مریض بنایا گیاتو ملک آنے والے برسوں میں متزلزل معیشت کے ساتھ ذہنی مریضوں کے ہاتھ میں ہوگا جو کرونا وائرس سے زیادہ تباہ کن ہوگا۔ بہتر حکمرانی کے لیے بروقت اقدامات اور قومی مفاد کے فیصلے لینا وقت کی ضرورت ہے جسکا وزیراعظم صاحب کو احساس ہے۔