(پاکستان میں تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر)
فلسطین عثمانی سلطنت کا حصہ تھا جو 1922 میں لیگ آف نیشنز کی طرف سے انگلستان کی سرپرستی میں دیا گیا۔ اس علاقے کے کنٹرول کیلئے انگلستان کے مینڈیٹ پر مبنی طریق کار کے تحت 1917 میں “بالفورڈ ڈیکلریشن” جاری کیا گیا جسکے ذریعہ فلسطینی سرزمین کو تبدیل کرکے اسے یہودیوں کی اصلی اور قومی سرزمین قرار دے دیا گیا۔ مذکورہ مینڈیٹ کے طریق کار سے 1922 سے 1947 کے دوران یہاں پوری دنیا اور خصوصاً مشرقی یورپ سے بڑے پیمانہ پر یہودیوں کی ہجرت عمل میں آئی۔ جبکہ تیس کی دھائی میں نازیوں کے مظالم نے اس ہجرت میں نمایاں اضاف کیا۔ وسیع پیمانے پر ہجرت، فلسطینیوں کی املاک اور اموال کی لوٹ مار، ان کے انفرادی حقوق کی پامالی، “قوم کے بغیر زمین اور زمین کے بغیر قوم کیلئے جیسے غلط اور غیر منطقی نعروں اور امریکا کی طرف سے غاصبوں کی ٹھوس حمایت سے آخر کار صیہونی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔
انگلستان کی زیر سرپرستی مدت کے دوران برطانیہ کے غیر قانونی اقدامات کے بعد 1948 میں امریکہ کی طرف سے اور پھر سویت یونین کی طرف صیہونی ریاست کو تسلیم کر لیا گیا۔ یہ اقدام اس طرح عمل میں لایا گیا کہ فلسطین اور اس خطہ کے اصلی باشندوں سے ان کے حق خود ارادیت اور ان کے مستقبل کے بارے میں کسی قسم کی مشاورت کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ درحقیقت صیہونی حکومت کا قیام اس حال میں عمل میں آیا کہ فلسطین کے اصلی باشندوں کو اپنے مستقبل کے تعین کا حق نہیں دیا گیا۔ وہ تمام اقدامات جن کا نتیجہ صیہونی حکومت کی شکل میں ظاہر ہوا، زمانہ کے رائج تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔
لیگ آف نیشنز کے منشور کے آرٹیکل 22 کے تحت انگلستان کو فلسطین پر کسی قسم کی حاکمیت کے حقوق و اختیار حاصل نہیں تھا اور اسے چاہیے تھا کہ ایک ایسے ریفرنڈم کے ذریعہ اس سرزمین کے تمام باشندوں کو ان کے حق خود ارادیت کے اظہار کا موقع فراہم کرتا۔ جبکہ نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کے نظریہ کے تحت مخالفین کی سرکوبی، فلسطینی دانشوروں کی ان کے گھروں سے جبری بیدخلی، فلسطین کی سرزمین کو اصلی باشندوں سے خالی کرانا اور اس جیسے دوسرے پر تشدد اقدامات بھی عمل میں لائے گئے۔
ہجرت کو روکنے سے متعلق اسلامی ممالک کی درخواست پر بڑی طاقتوں کی بے پروائی، دیگر اقدامات پر سستی اور اس کے نتیجہ میں بے تحاشا مسلسل ہجرت اور عین اسی دوران فلسطینی عوام کے خلاف تشدد کا نتیجہ دشمنی اور نفرت کی صورت میں اس سارے خطہ میں ظاہر ہوا۔ اس غیر متناسب جھگڑے کے دوران غاصب افواج کو اسلحہ کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور بڑے ذخائر سے نوازا گیا لیکن فلسطین کے ستم رسیدہ عوام کے ہاتھوں میں صرف وہ چھوٹے پتھر تھے جنہیں وہ احتجاج کے طور پر پھینک رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام روز بروز اپنی زمینوں سے بیدخلی اور اپنی شناخت کو ختم ہوتا دیکھ رہے تھے جبکہ صیہونی روز بروز طاقتور بھی ہو رہے تھے اور زیادہ سے زیادہ زمینیں بھی ہتھیا، رہے تھے۔
جامع حل کا فقدان
اس وقت سے آج تک غاصبوں کے بدترین جرائم کو بے نقاب کرنے کیلئے اقوام متحدہ کو مختلف تجاویز دی جاتی رہیں اور مختلف عالمی اور علاقائی فورم پر صیہونی ریاست کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کی زبانی اور لفظی مذمت کیلئے کئی ایک قرار دادیں بھی پاس کی گئیں لیکن ان میں سے کوئی بھی فلسطین کے مظلوم عوام کے حق میں کامیابی نہ ہو سکی۔
اسلامی تعاون تنظیم جو کہ 1969 میں بیت المقدس پر مجرمانہ حملہ کے بعد 25 ستمبر 1969 کو فلسطینیوں کی حمایت کے نظریہ کے تحت وجود میں آئی، ا ب تک فلسطینیوں کی آزادی اور خودمختاری کے مقصد کو حاصل نہیں کر سکی اور فلسطینی دہائیوں سے صیہونی ریاست کی قید میں ہیں، اس ناکامی کی بڑی وجہ ان کے ارکان کے درمیان اختلافات اور دخل انداز عناصر کا تخریبی کردار ہے۔
فلسطین کے استحکام اور اس کے قیام کیلئے پیش کی گئی تجاویز اور پاس کی گئی قراردادوں کی ناکامی نے صیہونی حکومت کا راستہ ہموار کیا ہے تا کہ پہلے مرحلے میں قبضہ کو مضبوط کرکے پھر غزہ کا کنارہ اور مغربی پٹی کو اپنے مقبوضہ علاقہ کیساتھ ضم کر سکے۔ اس تمام عمل کا نتیجہ فلسطینیوں کے بغیر اور دوسرے ممالک میں مہاجر ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ فلسطینی عوام کے ٹھوس مطالبات خود ارادیت، قومی خودمختاری، حق اقتدار اور اپنی سرزمین پر واپسی کے حقوق حاصل کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی کوششوں کی ناکامی نے انہیں پہلے انتفاضہ اول اور اب انتفاضہ دوم جیسی تحریکوں کی راہ دکھائی۔فلسطینی سرزمین پر محاذ آرائی کے آغاز سے اب تک اسلامی ممالک کی طرف سے مذکورہ تنظیموں کو فلسطینی عوام کے مکمل حقوق بحال کرنے پر مجبور کرنے کیلئے کوششیں عمل میں لائی گئی ہیں۔
لیکن امریکہ کی طرف سے تخریبی کردار اور اقوام متحدہ کی فیصلہ سازی میں دخل اندازی کی بدولت، فلسطینی عوام کے حقوق پر انتہائی کم توجہ دی جاپائی ہے حتیٰ کہ یہ کم ترین توجہ اور کم سے کم حقوق جو کہ مذکورہ بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے مشاہدہ کئے گئے، جن میں انسانی حقوق کمیشن، انسانی حقوق کونسل، سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی وغیرہ، نفاذ کے مراحل میں موجود رکاوٹوں کی وجہ سے بھی اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکے ہیں۔ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صیہونی لالچی حکومت اور اس کے حامی اقوام متحدہ کے فیصلوں اور حکمت عملیوں کے تحت کم سے کم سہولت بھی فلسطینیوں کو دینے پر آمادہ نہیں ہے۔
تاریخ بخوبی گواہ ہے کہ فلسطین میں صیہونی حکومت کے وحشیانہ غیر انسانی اقدامات کی مذمت کرنے پر امریکہ نے انسانی حقوق کمیشن کو کس طرح بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ فلسطینیوں کی امداد پر اقوام متحدہ کی بے بسی کے ساتھ ساتھ، مغربی ممالک کی صیہونی حکومت کے بڑھتے ہوئے مظالم سے چشم پوشی سے غاصب حکومت پہلے سے کہیں بڑھ کر فلسطین کے معصوم عوام کے حقوق پامال کرنے میں جت گئی۔ اس مجرم حکومت نے امریکہ کی پشت پناہی سے اپنی بدمعاشی اور بین الاقوامی سطح پر معروف اقدار کی پامالی کا عمل بڑھا دیاہے۔عرب ممالک کی طرف سے اس نئے ایجنڈے کے سامنے غیر فعال رد عمل سے فلسطینیوں کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ مشکل حالات پیدا ہوئے، جس کا مقصد مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کرنا ہے۔
اس نئے ایجنڈے میں سے ایک ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈیل آف دا سینچری والی تجویز ہے جو کہ شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہو چکی ہے۔ کیونکہ اس میں فلسطینیوں کیلئے کسی استحکام اور ریلیف کی کوئی جھلک موجود نہیں ہے۔ بلکہ صیہونی حکومت کو دوسری سرزمینوں کو اپنے ساتھ ضم کرنے کے دعوؤں کی بھی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مذکورہ ڈیل والی تجویز کو دوسری سرزمینوں کو ہڑپ کرنے کا لبادہ اوڑھنا کہیں یا اس صدی کا سب سے بڑا تھپڑ! اہم بات یہ ہے کہ اس تجویز سے موجودہ بحران اور جنگی حالات پر کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی۔
مسئلہ فلسطین کے متعلق ایرانی ردعمل پر ایک نظر:
اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی اور رہبر امام خمینی (رہ) نے سات اگست 1979 کو ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا تا کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو کر صیہونی حکومت کی مذمت اور مظلوم فلسطینی عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کریں۔۔ امام خمینی (رہ) نے اسکے ساتھ ہی فلسطین کی آزادی کوہر مسلمان کا مذہبی فریضہ قرار دیا ہے۔اس اجتماعی اور علامتی اقدام کے علاوہ ایران نے غارت گری اور سرکوبی کیخلاف فلسطین کی تحریک مزاحمت کی حمایت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے نہیں دیا۔ ایران کی طرف سے سب سے اہم حمایت، روحانی اور مجازی حمایت ہے۔
جس کے تحت مختلف مسائل اور موضوعات کا وسیع احاطہ کیا گیا، جس کے تحت فلسطینیوں کی آواز پوری دنیا تک پہنچانے، کئی طرفہ فورموں اور فلسطینیوں کے اپنا حق لینے کے جذبے کی تقویت قابل ذکر ہیں۔ اس حمایت کے نتیجہ میں فلسطینی عوام اپنے ان حقوق کے تحفظ کیلئے جو کہ اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل 51 میں بھی درج ہوئے ہیں، یک سو ہو کر جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے اس سے پہلے پیش کی گئی تجاویز کے کارآمد نہ ہونے اور امتیازی ہونے کے پیش نظر، اسلامی جمہوریہ ایران نے اقوام متحدہ کو “فلسطینی قومی ریفرنڈم” کے عنوان سے ایک جامع تجویز پیش کی ہے۔
جس میں واضح طور پر فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے حصول کا نقشہ مہیا کیا گیا ہے۔ یہ حکمت عملی مکمل طور پر اقوام متحدہ کے منشور اور دوسرے بین الاقوامی قوانین، جیسا کہ انسانی حقوق اور دوستانہ انسانی حقوق کے مطابق ہے۔ کہ وہ تمام فلسطینی جس میں مسلمان، یہودی اورعیسائی شامل ہیں جو رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر بالفور ڈیکلئریشن سے پہلے اس سرزمین پر آباد تھے، وہ اس قومی ریفرنڈم کو منعقد کریں گے اور اس کے نتائج کی بنیاد پر سیاسی نظام تشکیل پائے گا جو کہ تارکین وطن کے بارے میں فیصلہ کریگا۔ اس تجویز کے نفاذ کیلئے ضروری ہے کہ وہ فلسطینی عوام جو اس سرزمین کے اصلی باشندے اور اصلی مالک ہیں۔
اور ہجرت اور پناہ کے طور پر دوسرے ممالک اور علاقوں میں رہ رہے ہیں، وہ تمام افراد اپنے آبائی علاقوں میں واپس لائے جائیں۔ جبکہ اس بات کا تقاضا خود فلسطینی عوام نے بھی کیا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا کہ ایران نے فلسطینیوں کی حمایت کیلئے کسی بھی کوشش اور موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور اس راستے پر بہت سے اخراجات اور قربانیاں پیش کر چکا ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں ایران نے فلسطینی کاز کی حمایت کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کیا ہے۔
امریکہ کی طرف سے یکطرفہ پابندیاں، امریکہ کی طرف سے ایران کو بدنام کرنے اور مسلح افواج کو دہشتگرد ظاہر کرنے کا غیر قانونی اقدام، جیسا کہ “قدس فورس”، اعلیٰ ایرانی فوجی حکام کو نشانہ بنانا، قدس کے شہید سردار قاسم سلیمانی، جس شخص نے بین الاقوامی قوانین کے فریم ورک کے اندر، خطہ کے مظلوم عوام کی حمایت کی اور دہشتگردی، استحصال اور قبضہ کیخلاف ڈٹ کر اپنا کردار ادا کیا۔ ان دشواریوں اور قربانیوں کے باوجود ایران کی بیدار قوم، پوری دنیا کے باضمیر لوگوں کیساتھ ملکر فلسطینی کاز کے تحفظ کیلئے ثابت قدم ہے۔ جو کہ خودمختاری، آزادی اور عوام کا اقتدار ہے۔
حاصل گفتگو:
یہ بات گہرے دکھ کا باعث ہے کہ سات دہائیوں کے بعد بھی مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوا اور عالمی معاشرہ بھی اس منفرد اور پیچیدہ بحران کے سامنے بے بسی محسوس کر رہا ہے۔اقوام متحدہ کے اقدامات کے غیر موثر اور غیر اہم ثابت ہونے کے پیش نظر، امت مسلمہ فلسطینیوں کی مدد اور ان کے حقوق کی بحالی کیلئے اپنے دینی فرائض کے مطابق یکجہتی کے ساتھ متحد ہو جائے اور اس صیہونی دھوکہ باز اور غاصب حکومت کیخلاف ایک ٹھوس موقف اختیار کرے جس کے پاس قتل عام، تباہی، اسلامی مقدسات کی توہین وغیرہ کے سوا ہمارے خطہ کیلئے اور کچھ نہیں ہے۔فلسطین اور قدس شریف کی حمایت کیلئے دنیا بھر کے مسلمان آج بھی گزشتہ سالوں کی طرح، امام خمینی (رہ) کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی حمایت میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کے طور پر منائیں گے۔