پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہزاروں تنظیمیں غربت کے خاتمے کے نام پر عیاشیوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور غریب کے نحیف جسم پر پاؤں رکھ کر اپنی معاشی زندگی کے محل تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ آج سے کئی سال قبل کی رپوٹ ہے حکومت پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پہلے ملک میں آبادی کے لحاظ سے ہر 10 میں سے ایک شخص غریب تھا اور اب یہ تعداد بڑھ کر 3 ہو چکی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی اور مالیات کی جانب سے بین الاقوامی ترقیاتی اداروں کی موجودگی میں تیار کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد میں ایک دم حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ملک میں غریب افراد کی تعداد 2 کروڑ سے بڑھ کر 5 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔آج پاکستان میں لاکھوں نہیں کروڑوں غریب، یتیم،معصوم بچے سکول جانے اور کھیلنے کودنے کی عمر میں انتہائی سخت قسم کی مزدوری کرتے ہیں۔6 سے 14 سال کے یہ معصوم پھول ہوٹلوں،ورکشاپوں،شاپنگ پلازوں،امراء کے گھروں،سڑکوں،زیرتعمیر عمارتوں پر مزدوری کرتے ہیں اور کئی لاکھ بچے بھیک بھی مانگتے ہیں۔حکمران اور بہت سی این جی اوز جو بچوں کے حقوق کی دعویدار ہیں نیند کی گولی کھاکر گہری نیند سوجاتے ہیں جبکہ یہ مزدور بچے کسی پارک یافٹ پاتھ پر بغیر نیند کی گولی کھائے مردوں کی طرح سوجاتے ہیں۔
لیکن کسی کو احساس تک نہیں ہے ایک طرف پورے ملک میں عید کی خوشیاں منائی جارہی ہیں اور شاپنگ کے نام پر فضول خرچیوں کا بازار گرم ہے، دوسری طرف ملک کے طول وعرض میں بہت بڑی تعداد ان غرباء کی ہے جن کی پریشانی بڑھ رہی ہے کیونکہ عید ان کو ستانے آرہی ہے۔اس موقع پرہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اس سلسلے میں قارئین کرام چند باتیں ضرور ملاحظہ فرمائیں!اللہ تعالیٰ نے آپ کو مال دیا ہے تو اس کی اتنی نمائش نہ کریں کہ غریبوں کے لئے زندہ رہنا مشکل ہوجائے۔ بہت قیمتی چیزیں اپنے بچوں پر نہ لا دیں۔
بانٹ کر کھائیں اور ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھیں اور تو اور کسی غریب کے گھر کے سامنے گوشت کی ہڈیاں اور پھلوں کے چھلکے تک نہ ڈالیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بچے بھی گوشت اور پھل مانگنے لگیں اور وہ بے چارہ غم کے آنسو پی کر جلتا رہے۔اللہ تعالیٰ نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مالداروں سے افضل ہیں وہ مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ انبیاء علیہم السلام کے طریقے پر ہیں وہ اپنی آنکھوں میں لالچ، محرومی اور سوال کی ذلت نہ بھریں۔ اپنے سر پر قناعت کا تاج رکھیں عید کے دن نئے کپڑے بالکل ضروری نہیں ہیں۔ بچوں کے لئے نئے جوتے ہرگز ہرگز ضروری نہیں ہیں اس لیے ان چیزوں کا غم نہ کھائیں اور نہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ لائیں۔ پیوند لگے کپڑوں میں جو عزت اور شان ہے وہ ریشم کے لباس میں نہیں ہے۔
کسی کو اس بات پر نہ کوسیں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو کسی کے مال پر نظر کرنے دیں۔ قناعت اور استغنا کا تاج پہنیں اور قبر کی مٹی کو یاد رکھیں۔ رب کعبہ کی قسم دنیا انہیں لوگوں کو ستاتی ہے جو موت اور قبر کو بھول جاتے ہیں اور جو لوگ موت اور قبر کو یاد رکھتے ہیں یہ دنیا ان کے قدموں پر گرتی ہے۔ عید کا ایک دن بھی گزر جائے گا چاروں طرف دنیا کے میلے دیکھ کر اپنی غریبی اور فقیری کو داغدار نہ ہونے دیں۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عید کے دن نبی کریم مسجد جارہے تھے کہ راستے میں کچھ ایسے بچوں کوکھیلتے دیکھا جنہوں نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔بچوں سے سلام دعاکے بعدآپ آگے تشریف لے گئے تووہاں ایک بچے کو اداس بیٹھے دیکھا۔آپ نے اس کے قریب جا کرپوچھا تم کیوں اداس اور پریشان ہو؟اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔
اے اللہ کے رسول میں یتیم ہوں میراباپ نہیں ہے،جومیرے لئے نئے کپڑے خریدتا،میری ماں نہیں ہے جو مجھے نہلاکر نئے کپڑے پہنادیتی اس لئے میں یہاں اکیلا اداس بیٹھا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر اپنے گھر لے گئے اور ام المومنین سیدہ عائشہ سے فرمایا ”اس بچے کو نہلا دو”اتنے میں آپ نے اپنی مبارک چادر کے دو ٹکڑے کردیے۔چادر کا ایک ٹکڑا شلوار کی طرح باندھ دیا اور دوسرا اس کے بدن پر لپیٹ دیاگیا۔بچہ جب نہلاکر نئے کپڑے پہن کر تیار ہوگیا تو آپ نے بچے سے فرمایا آج تو پیدل چل کر مسجد نہیں جائے گابلکہ میرے کندھوں پرسوار ہوکر جائے گا،آپ نے یتیم بچے کو اپنے کندھوں پر سوار کرلیا اور مسجد کی طرف روانہ ہوگئے راستے میں وہ مقام آیا جہاں بچے نئے کپڑے پہنے کھیل رہے تھے جب ان بچوں نے دیکھا وہ یتیم بچہ جو اکیلا اداس بیٹھا تھا رحمت دوعالم حضرت محمد کے کندھوں پرسوار ہے تو کچھ کے دلوں میں خیال گزرا کہ کاش وہ بھی یتیم ہوتے تو آج نبی کریم کے کندھوں کی سواری کرتے۔(جاری ہے)