بلوچستان کاشمار وسائل کے اعتبار سے امیرترین اور مسائل کے اعتبار سے سب سے غریب صوبوں میں ہوتاہے،جہاں لاکھوں کی تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں دوسری جانب ہزاروں جعلی ڈومیسائل کے حامل افراد بلوچستان کے کوٹے پر بڑے بڑے پوسٹوں پر ملازمت کررہے ہیں، یہ تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان پرایوں کے علاوہ اپنوں کے برے سلوک و ستم کا شکار رہا ہے۔ مگر اس تناظر میں صریح زیادتی کا مرتکب وفاق اور وفاق کی طاقتور بیورو کریسی ہے، اب صوبے پر تسلط اور رسوخ کی ایک اور صورت بھی سامنے آچکی ہے۔
بلوچستان کے اندر سیاسی جماعتوں، صوبے کی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ارکان نے قانونی جنگ بھی لڑی ہے، عوامی و سیاسی میدانوں میں بھی صوبے کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے۔ البتہ حقوق کی اس آئینی و قانونی جنگ سے کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔ سیاسی احتجاج اور جدوجہد ایک عام رواج کی مانند تصور کیا جاتا ہے۔ جسے اسٹیبلشمنٹ معمول کا شور شرابا جان کر نظر انداز کرتی ہے۔ ان دنوں صوبے کے اندر جعلی ڈومیسائل پر دوسرے صوبوں بالعموم سندھ اور بالخصوص پنجاب کے لوگوں کابلوچستان کے کوٹے پر وفاقی ملازمتوں پر بھرتیوں کامعاملہ بہت گرم ہے۔
یہ مسئلہ حقیقی ہے، بلوچستان کے نوجوانوں کاحق سامنے سامنے مارا جارہا ہے۔ مگر اس صریح زیادتی و ڈاکہ زنی کو ماضی میں روکاجاسکا اور نہ اب اس تسلسل کو روکنے کے فی الواقع امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ اخبارات اور سوشل میڈیا پر خوب بیان بازی ہورہی ہے۔ اور تمام جماعتیں اور حلقے حکومت سے کارروائی کے مطالبات اور قانونی چارہ جوئی پر زور دے رہے ہیں۔ یعنی اس بابت بلوچستان کی سبھی جماعتیں متفق ہیں۔ تاہم یہ سارے حلقے خود قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے کردار نبھاتے دکھائی نہیں دیتے۔
دراصل تجاوز کا یہ سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ سرکاری ملازمین دوسرے صوبوں سے لائے جاتے۔ وجہ یہ تھی کہ بلوچستان میں تعلیم یافتہ اور سرکار کو مطلوب ملازمین موجود نہ تھے۔ تعلیم کی شرح نہ ہونے کے برابرتھی۔ اس طرح سرکاری ملازمتوں پر پنجاب کے لوگ ہی بھرتی ہوتے چنانچہ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا اجراء ہوتا جو تبادلے کے بعد بھی ان اسناد کے حامل رہتے۔ صوبے میں سکونت رکھنے والے آباد کار ڈومیسائل کے حامل ہیں۔ مگر غیر آباد کاروں نے بھی یہ اسناد حاصل کرنا شروع کردئیے۔
یوں بلوچستان اور وفاق میں صوبے کے لیے مختص کوٹے پر بڑی آسانی سے ملازمتوں کے حامل ٹھہرتے اور یہ سلسلہ ہنوز چل رہا ہے۔ اس کے ساتھ جعلی ڈومیسائل کے اجراء میں بھی اضافہ ہوا۔ باہر کے لوگ رشوت کے ذریعے صوبے کے مختلف اضلاع کی انتظامیہ سے ڈومیسائل بنوالیتے حتیٰ کہ لوکل سرٹیفکیٹ تک حاصل کر لیے جاتے جس کی بنیاد پر تعلیمی اداروں میں داخل لیے جاتے ہیں۔ میڈیکل، انجینئرنگ، ایگریکلچر کی نشستیں سمیت اسکالر شپس بھی حاصل کرتے ہیں۔ بلوچستان کے کوٹے پر سیکڑوں نوجوان اسکالر شپ لے کر بیرون ملک جاچکے ہیں۔
بلوچستان کے طلبہ جو دوسرے ممالک اسکالر شپ پر جاتے ہیں، بتاتے ہیں کہ بلوچستان کے کوٹے پر آنے والے طلبہ میں ایک بڑی تعداد پنجاب کے رہائشیوں کی ہوتی ہے۔ بلوچستان کے اندر بھی ایسے ملازمین کی کمی نہیں جنہوں نے جعل سازی کے ذریعے ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ حاصل کررکھے ہیں۔ ان میں اعلیٰ ملازمتوں پر بیٹھے لوگ بھی شامل ہیں۔ بلوچستان کے موجودہ بعض پارلیمنٹرین کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جعل سازی کے ذریعے لوکل سرٹیفکیٹ حاصل کررکھے ہیں۔ الغرض مسئلہ سینیٹ میں نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر کبیر محمد شہی اور پشتو نخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے اْٹھایا۔
یقینا بلوچستان کے دوسرے سینیٹرز جواس معاملے کو صوبے کے نوجوانوں کی حق تلفی سمجھتے ہیں بھی بات کرتے ہیں۔گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی نے حلف اْٹھانے کے بعد وفاقی محکموں میں بلوچستان کے کوٹے پر جعلی ڈومیسائل پر تعینات ہزاروں غیر مقامی افراد کا ریکارڈ منگوانے کی ہدایت کردی۔ صوبے کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو جاری ڈومیسائل کی ازسر نو تصدیق کرانے کی ہدایت کی۔ چناں چہ اب تک مختلف اضلاع کی انتظامیہ بڑی تعداد میں غیر قانونی ڈومیسائل کی نشاندہی کرچکی ہے۔ ضلع مستونگ میں چار سو جعلی ڈومیسائل کی نشاندہی ہوئی۔
کوئٹہ اور چند دوسرے اضلاع سے بھی بڑی تعداد میں جعلی ڈومیسائل بنوائے جا چکے ہیں،ضلع سوراب کے تقریباً تیس سے زیادہ جعلی ڈومیسائل کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ بلوچستان کے کوٹے پر وفاق میں ایسے افراد نے بھی ملازمتیں حاصل کر رکھی ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی اس صوبے میں کبھی قدم نہیں رکھا۔ جبکہ صوبے کے اندر بھی کئی محکموں بالخصوص پولیس میں بڑی تعداد میں باقی صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے ملازمین موجود ہیں جن کے اہل و عیال یہاں نہیں رہتے۔ ریٹائرمنٹ تک اکیلے یہاں رہائش اختیا ر کرتے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعدخود بھی آبائی صوبے چلے جاتے ہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ صوبے کے اندر ڈومیسائل کی تجدید کرائی جائے، تمام ڈومیسائل منسوخ کیے جائیں، خوا جن کا تعلق بلوچستان ہی سے کیوں نہ ہو۔ کیونکہ یہاں کے قدیم نان لوکل فیملیز کی بھی حق تلفی ہورہی ہے۔ یہاں سکونت رکھنے والے افراد دوبارہ اپنے اپنے اضلاع میں اسناد کے لیے رجوع کریں۔ ساتھ جن سیکڑوں افراد نے ڈومیسائل کے حصول کے لیے جعل سازی کی ہے اور ملازمتیں حاصل کی ہیں، کے خلاف مجاز اداروں سے رجوع کیا جائے۔ اس سلسلے میں نادرا کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ نادرا چند سال قبل بلوچستان حکومت کو ایک پروپوزل بھی دے چکی ہے۔ مگر وفاق اور صوبے کے اندر موجود با اثر بیورو کریٹس رکاوٹ بنے۔ کیونکہ وہ خود یا ان کے عزیز و اقارب اس کی زد میں آئیں گے۔
وزیراعلیٰ جام کمال نے جعلی ڈومیسائل کی منسوخی کوحکومت کا اپنی نوعیت کا پہلا اقدام کہا ہے۔ جام کے مطابق پچھلی حکومتوں نے اس مسئلہ کو سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ خیر ایسی بھی نہیں ہے بلکہ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جب صوبے میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت بنی اور سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بنے۔ ان کی حکومت نے سرکاری ملازمتوں پر مقامی افراد بھرتی کی پالیسی اپنائی، غیر مقامی افراد کو جانے کا کہا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت ختم کردی تو یہ معاملہ ادھورا رہ گیا۔ دراصل نیپ حکومت کے اس اعلان نے پنجابیوں بلوچستان چھوڑ دو مہم کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سو بلوچستان کے کوٹے پرریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کی تفصیلات بھی سامنے آنی چاہیے۔ سیاسی جماعتیں بیان بازی سے بڑھ کر قد م اٹھائیں۔ وکیل،سرکاری ملازمین اور طلبہ اسے چیلنج کریں۔ حتیٰ کہ صوبے کا ہر شہری شخصی طور اپنے ارد گرد اگر انہیں معلومات ہوں کہ کسی نے جعل سازی کے ذریعے ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ حاصل کررکھا ہے یا اس بنیاد پر ملازمت لے رکھی ہے، کے خلاف متعلقہ ضلعی انتظامیہ سے رجوع کریں۔ صوبے اور اپنے لوگوں کاحق مارنے والوں سے یقینارعایت نہیں ہونی چاہیے۔